میرا تعلق چوں کہ محکمہ تعلیم سے ہے تو میرے فرائض میں طلبہ و طالبات کی بطور اچھے انسان اور شہری تربیت کے لیے مختلف نصابی اور ہم نصابی سرگرمیاں ترتیب دینا بھی شامل ہے۔
اب اگر میں بات شروع کروں گی کہ ہمارے زمانے میں تو یہ سرگرمیاں ایسے نہیں تو ویسے ہوا کرتی تھیں تو کچھ غلط نہیں ہو گا۔
لہٰذا سب سے پہلے تو ان کے بارے میں ذکر کریں گے کہ کون کون سے پروگرام شاگردوں کی ذہنی و شعوری پرداخت کے لیے لازمی ہوا کرتے تھے۔
تعلیمی سال کے شروع میں ہی ان کی فہرست مرتب کر کے پراسپیکٹس میں پیش کر دی جاتی تھی۔
ان میں تقریری مقابلے، مباحثے، فن فیئر، کھیلوں کے مقابلے، فینسی ڈریس شو، گانوں کے مقابلے اور سب سے پہلے مکمل اہتمام کے ساتھ عید میلاد النبی منایا جاتا تھا جس کا مطلب ہوا کرتا تھا کہ سال کا آغاز نبی اکرم کے بابرکت ذکر سے ہو گا۔
لیکن ان سب کا مقصد صرف اور صرف طلبہ و طالبات کی گروپ ایکٹویٹیز کے ذریعے قائدانہ صلاحیتوں کو چمکانا ہوتا تھا۔
یاد نہیں پڑتا کہ ہمارے وقت میں کبھی کسی تقریری مقابلے سے پہلے قواعد و ضوابط بیان کرتے ہوئے ہمیں سیاسی اور مذہبی مثالیں دینے سے منع کیا جاتا ہو۔
اس دور میں طلبہ یونینز بھی کام کیا کرتی تھیں۔ ان کی سیاسی تربیت تعلیمی اداروں کے ذمے ہی ہوتی تھی جیسا کہ دیگر ترقی یافتہ ممالک کے نصاب میں اس طرح سرگرمیاں مستقبل کے رہنما پیدا کرنے کے لیے منعقد کی جاتی ہیں۔
اور ہم بہت سے ایسے سیاسی لیڈروں اور ورکروں کو بھی جانتے ہیں جو زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست میں حصہ لیتے آ رہے تھے۔
اب کہیں کوئی کایا پلٹ ہوئی اور تعلیمی اداروں سے ان یونینز کو بالکل ختم کر دیا گیا۔ ایک طرح سے تو بہت اچھا ہوا کہ سیاسی تربیت ہوتے ہوتے ان سے متعلق طالب علم غلط قسم کی حرکتوں اور غنڈہ گردی میں ملوث ہونے لگے تھے۔
لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ ان یونینز پر پابندی کے ساتھ ہی ایک ریڈی میڈ نصاب کے تحت جو ذہن سازی شروع کی گئی اس میں سیاسی اور شہری شعور کوسوں دور چلا گیا۔
آپ کا ووٹر جو 18 سال کا ہو چکا ہے وہ سوشل میڈیائی تربیت کے زیر اثر حقائق سے دور کسی ایسے یوٹوپیا کا باسی ہے جہاں عقل کی بات پہنچتی نہیں البتہ خوامخوا کا جذباتی پن اور ہیروازم ضرور ان میں سرایت کرتا جا رہا ہے۔
رہی سہی کسر تعلیمی اداروں میں حکام بالا کی طرف سے آئے ہوئے احکامات کے تحت منعقد ہونے والی تقاریب سے پوری ہو جاتی ہے۔
جب انہیں کرپشن پر تقریری کرنے کو کہا جاتا ہے لیکن ساتھ ہی ملک کے مقدس اداروں، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے خلاف یا حق میں بولنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
اصول و ضوابط کا ایک لمبا چوڑا پرچہ جاری ہوتا ہے جس کے تحت اساتذہ اور والدین اپنے بچوں کو ایسے بولنا سکھائیں گے کہ لاٹھی بھی نہ ٹوٹے سانپ بھی بھاگتا ہوا محسوس ہو اور فائلوں کے پیٹ بھرے جاتے رہیں ساتھ ساتھ بڑوں کی اے سی آرز بھی سجتی سنورتی رہیں۔
اب تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ آپ جنہیں اس قدر جبر کی فضا میں پروان چڑھاتے ہیں وہ آپ کے نصاب اور کھینچی گئی لکیروں سے باہر نکلتے ہی پہلا کام جگاڑ لگانے کا کرتے ہیں۔
جھوٹ، بدعنوانی، رشوت، سفارش اور دو نمبری کے ذریعے کچھ بھی کر کے پیسہ کمانے کو ضروری خیال کرتے ہیں۔
اب تو اس کمائی کا نیا راستہ ڈیجیٹل میڈیا ہے ایک یوٹیوب چینل بنایا، کچھ بھی الٹا سیدھا مواد اس پر ڈالا اور کمائی شروع۔۔۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مذہب کو لے کر کسی بھی متشدد گروہ کے ساتھ لگ کر نعرے بازی اور کچھ جانے سمجھے بغیر کسی شرپسند عنصر کی پیروی نے ایک ایسا گروہ جنم دیا ہے جو صرف اگلے فریق کی جان لینے کے علاوہ کسی طور پرسکون ہی نہیں ہوتا۔
سیاست کے نام پر ایسی جذباتی نسل پیدا ہو چکی ہے جو اپنی پسند کے لیڈر کے علاوہ دوسرے ہر مرد و زن سیاست دان کو صرف گالی دے کر بات کرنا پسند کرتے ہیں۔
نازیبا تصاویر، خلوت گاہ کی ویڈیوز، مصنوعی ذہانت کے ذریعے جعلی مواد کی تخلیق اور نہ صرف تخلیق بلکہ ان کے پھیلاؤ میں بغیر کسی اخلاقی رکاوٹ کے ہونے والا کام کتنوں کی زندگیاں تباہ کر جاتا ہے۔
یہ سب نہ کرنے کی تربیت گھروں کے بعد تعلیمی اداروں میں ہوا کرتی تھی اب وہ تو ناپید ہے۔
مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ درجہ بدرجہ یہ جہالت، یہ بد تہذیبی اور وحشت آنے والی نسلوں میں انڈیلی گئی ہے اور اس پر بات کرنے والوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ بھی ہم آئے روز کسی نہ کسی مثال کے ذریعے دیکھ ہی لیتے ہیں۔
اب ایک طرف اساتذہ کی تربیتی ورکشاپس میں انہیں کہا جاتا ہے کہ طالب علموں میں کریٹکل تھنکنگ پروان چڑھائیں۔ دوسری طرف بات سے قبل اساتذہ اور طلبہ پر پابندی بھی لگا دی جاتی ہے کہ مذہب، سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں بات نہیں کریں گے۔
اس پر مستزاد یہ کہ کبھی کوئی سیاسی شخصیت تو کبھی کوئی مذہبی شخصیت تعلیمی اداروں میں طالب علموں کے ساتھ انٹریکٹ کرنے کی خواہش میں تعلیمی اداروں کا رخ بھی کرتی ہے۔
اب سوشل میڈیا کے جھوٹے سچے پروپیگنڈے سے شعور پائے ہوئے سٹودنٹس کو وہاں بولنے نہیں دیا جاتا اکثر اوقات سوال اساتذہ ہی لکھ کے دیتے ہیں تاکہ بعد میں ان کی ملازمت کو بھی کوئی خطرہ نہ ہو۔
اب ایسے میں آپ کو اندازہ ہے یا نہیں واللہ عالم لیکن آپ نے سب اچھا ہے اور اچھا رہے گا کے چکر میں آنے والی نسلوں سے سیاسی شعور چھین کر جس طرح کا ہجوم پیدا کر لیا ہے وہ آپ کو جلد یا بدیر بہت مشکل میں ڈالنے والا ہے۔
لہٰذا ابھی وقت ہے ملک کو اس سیاسی اور معاشی بحران سے نکالنے کے لیے دراصل باشعور اور پڑھے لکھے لوگوں سے رجوع کر لیں۔
اور اپنی ہی آئندہ نسلوں کی سوچ سے ڈرنے کی بجائے انہیں بہترین اطوار پر استوار ہونے دیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔