پاکستان میں عام انتخابات 2024 میں تین دن باقی ہیں لیکن نگراں حکومت کی جانب سے سرکاری اداروں کی نجکاری کے معاہدے سامنے آ رہے ہیں جبکہ حال ہی میں نگران کابینہ میٹنگ میں ایف بی آر اصلاحات کی دستاویز بھی پیش کی گئی۔
تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ ’بڑے پالیسی فیصلے منتخب حکومت کا کام ہے۔‘
نگران حکومت کی جانب سے سرکاری اداروں کی نجکاری اور اصلاحات کرنے سے متعلق سیکریٹری الیکشن کمیشن ڈاکٹر آصف حسین نے سیکریٹری کابینہ ڈویژن کامران علی افضل کو خط لکھ دیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول خط کی نقل میں کہا گیا کہ ’پی آئی اے کی نجکاری کے سلسلے میں کابینہ کی منظوری کے لیے تیار کردہ تمام دستاویزات پہلے الیکشن کمیشن کو جائزہ کے لیے فراہم کیے جائیں اور الیکشن کمیشن کی جانب سے فیصلے تک نگراں حکومت پی آئی اے نجکاری کے حوالے سے معاہدے پر دستخط کرنے سے اجتناب کرے۔‘
میسر معلومات کے مطابق مبینہ طور پر وزارت نجکاری نے پی آئی کے روز ویلٹ ہوٹل کی امریکی کنسورشیم کے ساتھ معاہدہ کیا ہے جس کی دستاویز کو وفاقی کابینہ میں پیش کیا جانا ہے جن پر الیکشن کمیشن نے نوٹس لے لیا ہے اور کہا ہے کہ ’الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 230 کے تحت ان فیصلوں کا جائزہ لیا جائے گا۔‘
جبکہ دوسری جانب ایف بی آر میں اصلاحات سے متعلق بھی سیکریٹری الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم کے سیکرٹری کو خط لکھا ہے۔
خط کے متن میں کہا گیا کہ ’شائع خبروں کے مطابق نگراں حکومت آرڈیننس کے زریعے ایف بی آر میں اہم اصلاحات کا فیصلہ کر رہی ہے ابھی ایف بی آر میں اصلاحات نہ کی جائیں بلکہ ایف بی آر میں اصلاحات کا کام عام انتخابات کے بعد منتخب حکومت کے لیے چھوڑ دیا جائے۔‘
خط میں مزید کہا گیا کہ ’ایف بی آر کی اصلاحات ایک اہم پالیسی فیصلہ ہے جو صرف منتخب حکومت کا ہی اختیار ہے۔‘
نگراں حکومت کے اختیارات
گذشتہ برس حکومت کی مدت مکمل ہونے سے چند دن قبل 26 جولائی کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ 2017 سیکشن 230 میں 54 ترامیم کثرت رائے سے منظور کی گئیں تھیں۔
جس کے تحت نگران کو حکومت روزمرہ کے امور نمٹانے کے ساتھ ساتھ پہلے سے جاری منصوبوں اور پروگرامز سے متعلق اختیارات استعمال کرنے اور اہم پالیسی فیصلے لینے کا اختیار دیا گیا تھا۔
نگران حکومت کے قیام کے بعد الیکشن کمیشن نے نگران حکومت کے اختیارات میں اضافہ سے متعلق جاری بیان میں کہا تھا کہ ’سیکشن 230 میں ترامیم کے تحت نگران حکومتیں الیکشن کمیشن کی آگاہی سے دو طرفہ یا کثیر الفریقی معاہدہ یا فیصلے کے تحت اقدامات کر سکیں گی۔
’نگران حکومتیں جاری معاہدوں پر اقدامات کر سکیں گی، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی ایکٹ، بین الحکومتی کمرشل ٹرانزیکشنز ایکٹ کے تحت جاری منصوبوں پر اقدامات کی اجازت ہو گی۔ نگران حکومتیں نجکاری کمیشنز آرڈیننس کے تحت جاری معاہدوں، منصوبوں پر فیصلے کر سکیں گی۔‘
ایف بی آر میں کن اصلاحات کی تجویز دی گئی؟
فیڈرل بورڈ آف ریونیو بنیادی طور پر ان لینڈ ریونیو سروس اور کسٹم سروس کے گروہوں پر مشتمل ادارہ ہے۔
دونوں گروپ ٹیکس کے معاملات کو دیکھتے ہیں۔ معلومات کے مطابق ایف بی آر اصلاحات میں دونوں گروپوں کو الگ کر کے فیڈرل کسٹم بورڈ اور فیڈرل ان لینڈ ریونیو بورڈ بنانے کی تجاویز دی گئی ہیں۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس نے اصلاحات کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ ماہ 23 جنوری کو وفاقی کابینہ کا اجلاس نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں ہوا۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری اعلامیے کے مطابق ’اجلاس میں نگران وفاقی کابینہ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ری سٹرکچرنگ اور ڈیجیٹائزیشن کے حوالے سے پیش کی گئی تجاویز پر سیر حاصل بحث کی۔
وزیراعظم نے ایف بی آر اصلاحات کے حوالے سے پیش کی گئی ان تجاویز کے حوالےسے کابینہ اراکین کی آرا کی روشنی میں نگران وفاقی وزیر خزانہ کی سربراہی میں ایک بین الوزارتی کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کی۔
کمیٹی کے دیگر ارکان میں وفاقی وزرا برائے نجکاری، خارجہ امور، تجارت، توانائی، قانون و انصاف اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل ہوں گے۔
کمیٹی ان تجاویز کے حوالےسے اپنی سفارشات وفاقی کابینہ کے اگلے اجلاس میں پیش کرے گی۔
وزیر اعظم اور کابینہ کے تمام ارکان نے مشترکہ طور پر ان ایف بی آر اصلاحات کے حوالے سے ان تجاویز کی تائید کی اور اس موقف کا اعادہ کیا کہ نگران حکومت ایف بی آر اصلاحات کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔