پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں الزاام لگایا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے عام انتخابات میں خواتین کو قانون کے تحت نمائندگی نہیں دی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سیاسی جماعتوں نے الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 206 کی تعمیل نہیں کی جس کے مطابق اس الیکشن میں ہر صوبائی اور قومی اسمبلی میں خواتین کو کم از کم پانچ فیصد عام نشستوں کے ٹکٹ دینا ضروری ہے۔
رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کی 266 نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے والی آٹھ سیاسی جماعتوں میں صرف متحدہ قومی مومونٹ (ایم کیو ایم) اور پاکستان مسلم لیگ ن (پی ایم ایل این) نے عام نشستوں پر خواتین کو پانچ فیصد سے زیادہ ٹکٹ دے کر قانونی تقاضے کو پورا کیا۔
باقی چھ جماعتیں بشمول پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (پی پی پی پی) جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اور تحریک لبیک پاکستان ایسا کرنے میں ناکام رہیں۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ اعداد و شمار الیکشن کمشن کی ویب سائٹ پر دستیاب فارم 33 پر مبنی ہیں جن کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے اور چونکہ الیکشن کمشن نے سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی فہرست ابھی تک ویب سائٹ پر اپ لوڈ نہیں کی اس لیے غلطی کا معمولی خدشہ ہو سکتا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ الیکش کمشن اپنے اعدادو شمار کے مطابق ہمارے اعدادوشمار کا جائزہ لے اور ان کی تصحیح کرے۔
ڈائریکٹر پروگرامز عورت فاؤنڈیشن ممتاز مغل نے بتایا کہ ’ہمارا مقصد یہ بالکل نہیں کہ انتخاب کا عمل متاثر ہو۔ ہمیں بھی معلوم ہے کہ انتخاب میں صرف چند دن بچے ہیں۔
’دراصل سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدواروں کی حتمی فہرست چند روز قبل ہی جاری کی اور دوسری جانب الیکشن کمشن نے سیاسی جماعتوں کی طرف سے دی جانے والی فائنل فہرستیں اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ نہیں کیں۔‘
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کے لیے 73 ٹکٹیں دیں جن میں سے سات خواتین کو ملیں یوں خواتین کے ٹکٹوں کا تناسب 9.59 فیصد رہا۔
ن لیگ نے 205 جنرل نشستوں پر ٹکٹوں میں سے 16 ٹکٹیں خواتین کو دیں، یہ تناسب 7.8 فیصد بنتا ہے۔
اسی طرح پی پی پی پی نے 245 ٹکٹیں دیں جن میں سے خواتین کو 4.5 فیصد کے تناسب سے 11 ٹکٹیں ملیں، جو ہدف سے کم ہے۔
تاہم پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سینیٹر تاج حیدر رپورٹ کو حقائق کے برعکس قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی کی 251 نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے جن میں سے 13 نشستوں پر خواتین امیدوار انتخاب لڑ رہی ہیں جو مجموعی امیدواروں کا 5.18 فیصد ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’خیبر پختونخوا کی 101 نشستوں میں سے پانچ نشتستیں خواتین کی ہیں جو مجموعی امیدواروں کا 4.95 فیصد بنتا ہے۔ پنجاب اسمبلی کی 270 نشستوں میں سے 13 نشستوں پر خواتین امیدوار ہیں جو مجموعی تعداد کا 4.81 فیصد بنتا ہے۔
’سندھ اسمبلی کی 130 نشستوں میں سے سات (5.38 فیصد) جبکہ بلوچستان اسمبلی کی 51 نشستوں میں سے تین (5.88 فیصد) پر خواتین امیدوار ہیں۔‘
رپورٹ کے مطابق جماعت اسلامی نے 229 ٹکٹوں میں سے 10 خواتین کو دیں، جو 4.4 فیصد ہے۔ اے این پی نے 61 میں دو (3.3 فیصد)، ٹی ایل پی نے 220 میں سے صرف دو (0.9 فیصد)، بی این پی نے 11 اور جے یو آئی ے 127 ٹکٹوں میں سے ایک بھی ٹکٹ کسی خاتون کو نہیں دی۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے اے این پی اور جے یو آئی سے بھی بات کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ ممکن نہ ہو سکا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے خیال میں الیکشن کمشن کو اس قانونی خلاف ورزی پر ایکشن لینا چاہیے۔ ’میرے خیال میں ابھی تو کچھ نہیں ہو سکتا لیکن ہمیں یقین ہے کہ انتخابات کے بعد الیکشن کمشن اس مسئلے کو دیکھے گا۔‘
الیکشن کمشن پنجاب کی ترجمان ہدیٰ علی گوہر نے بتایا کہ یہ معاملہ اسلام آباد میں الیکشن کمیشن نے ٹیک اپ کیا ہے اور وہی اس پر کوئی فیصلہ کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس خلاف ورزی کی سزا تو یہ ہے کہ سیاسی جماعت سے اس کی انتخابی علامت واپس لے لی جائے لیکن حتمی فیصلہ بہرحال الیکشن کمیشن کو ہی کرنا ہے۔
عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس خلاف ورزی پر پارٹی سے انتخابی نشان واپس کے کر اسے الیکشن لڑنے سے روکا جا سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق صوبائی اسمبلیوں میں پنجاب اسمبلی کے لیے ایم کیو ایم میں خواتین کی نشستوں کا تناسب صفر ہے۔ پی ایم ایل این کا 1.4 فیصد، پی پی پی پی کا 4.6 فیصد اور جماعت اسلامی کا 2.5 فیصد ہے۔
پنجاب اسمبلی کے لیے اے این پی نے دو ٹکٹوں میں سے ایک ٹکٹ خاتون امیدوار کو دیا۔ پارٹی کی طرف سے ٹکٹ دینے کا تناسب 50 فیصد ہے۔ ٹی ایل پی نے 288 ٹکٹوں میں سے ایک ٹکٹ (0.3 فیصد) خاتون امیدوار کو دی۔
پاکستان مرکزی مسلم لیگ میں خواتین کی ٹکٹوں کا تناسب 6.1 فیصد ہے جبکہ جے یو آئی (ف) میں خواتین کو دی جانے والی ٹکٹوں کا تناسب 5.8 فیصد ہے۔
سندھ اسمبلی کے لیے ایم کیو ایم کا تناسب 4.4، ن لیگ کا 14 فیصد، پی پی پی 5.4، جماعت اسلامی 6.1، اے این پی صفر، ٹی ایل پی 2.6 فیصد، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) کا 11.7 فیصد اور جے یو آئی کا 15.7 فیصد ہے۔
اسی طرح خیبر پختونخوا اسمبلی کے لیے ایم کیو ایم کا تناسب صفر، ن لیگ 4.4، پی پی پی پی 5.6، ٹی ایل پی 6.3، قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی) 10، جے یو آئی 2.8 اور پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کا 8.3 فیصد ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں ایم کیو ایم کا تناسب صفر، ن لیگ 2.5 فیصد، پی پی پی پی 4.3، جماعت اسلامی پانچ، اے این پی صفر، بی این پی کا 5.6 اور جے یو آئی کا صفر فیصد ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔