سیالکوٹ: مسلم لیگ ن کا مقابلہ سابق پی ٹی آئی رہنما کی والدہ سے

ضلع سیالکوٹ کے شہری علاقوں پر مشتمل حلقے این اے 71 میں انتخابی مہمات زورو و شور سے جاری ہیں تاہم پی ٹی آئی کی خاتون امیدوار کو مشکلات کا سامنا ہے۔

پنجاب کے ضلع سیالکوٹ میں قومی اسمبلی کے حلقے 71 میں ویسے تو کئی امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں لیکن یہاں سے کئی بار منتخب ہونے والے مسلم لیگ ن کے امیدوار خواجہ آصف اور تحریک انصاف کی پہلی بار انتخابی دنگل میں اترنے والی ریحانہ امتیاز ڈار کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔

یہاں خواجہ آصف اور دیگر امیدوار بھرپور تشہیری اور انتخابی مہم چلا رہے ہیں، تاہم پی ٹی آئی کی ریحانہ ڈار کے مرکزی دفتر میں نہ گہما گہمی دکھائی دی اور نہ ہی حلقے میں ان کی انتخابی مہم سے متعلق سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں۔

پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر عثمان ڈار کی والدہ ریحانہ امتیاز ڈار کے بقول: ’میرے بیٹے نے پی ٹی آئی کو چھوڑ دیا لیکن میں خود عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوں، اسی لیے پہلی بار سیاسی میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’میرے بیٹے عمر ڈار کو گرفتار کیا ہوا ہے، نہ اشتہار لگانے دیے جارہے ہیں اور نہ ہی کھل کر انتخابی مہم چلانے کی اجازت ہے۔ ہمارے حامیوں کو گاڑی پر تصویر یا جھنڈا لگانے پر بھی پکڑ لیا جاتا ہے۔ یہ سب خواجہ آصف کروا رہے ہیں لیکن میں پھر بھی خوفزدہ نہیں، کامیابی کا یقین ہے۔‘

سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کا کہنا تھا: ’حکومت ہماری نہیں ہے اس لیے کسی الزام کا جواب نہیں دینا چاہتا، البتہ انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ ہم شور شرابے کی بجائے ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر ووٹرز کی حمایت چاہتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شہرِ اقبال سیالکوٹ کے ووٹرز سے جب آٹھ فروری کے انتخابات کے حوالے سے بات کی گئی تو بعض نے خواجہ آصف اور متعدد نے پی ٹی آئی امیدوار ریحانہ ڈار کو کامیاب کروانے کی خواہش کا اظہار کیا۔

مسلم لیگ ن کے امیدوار کے حامیوں کے مطابق وہ ملکی معیشت کی بہتری اور ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر خواجہ آصف کو ووٹ دینا چاہتے ہیں جب کہ تحریک انصاف کے حامی ووٹرز کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی قیادت کی پالیسیوں اور ان کے خلاف انتتقامی کارروائیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر وہ ایک ماں ریحانہ ڈار کو کامیاب کروانا چاہتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس حلقے کا دور کیا، جہاں کی بیشتر ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکوں کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری تھا۔ ان منصوبوں کے حوالے سے بھی دونوں امیدواروں نے دعویٰ کیا کہ یہ ان کی جماعتوں کے منصوبے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق شہری آبادیوں پر مشتمل اس حلقے سے خواجہ آصف 1983 سے واضح اکثریت سے کامیاب ہوتے رہے ہیں۔

خواجہ آصف اور عثمان ڈار کے درمیان اس حلقے میں پہلا مقابلہ 2008 کے انتخابات میں ہوا تھا جبکہ 2013 کے الیکشن میں، جب اس حلقے کا نمبر این اے 110 تھا، عثمان ڈار نے 71 ہزار ووٹ حاصل کیے جبکہ خواجہ آصف 92 ہزار ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے تھے۔ تاہم عثمان ڈار نے ان کی کامیابی کو چیلنج کیا تھا۔

2018 کے عام انتخابات میں اس حلقے کو این اے 73 کا نمبر دیا گیا اور ایک بار پھر خواجہ آصف کے مقابلے میں عثمان ڈار میدان میں اترے اور ایک لاکھ 15 ہزار 464 ووٹ لیے جب کہ خواجہ آصف ایک لاکھ 16 ہزار 957 ووٹوں کے ساتھ کامیاب قرار پائے۔

خواجہ آصف کی تقریباً 1500 ووٹوں کی برتری کو عثمان دار نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور اس حلقے کے نتائج کی چھان بین کی درخواست کی، مگر سپریم کورٹ نے کچھ عرصہ بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے کامیاب قرار دیے گئے خواجہ آصف کے نوٹیفکیشن کو بحال رکھا۔

ضلع سیالکوٹ میں کل ووٹرز کی تعداد 27 لاکھ اور یہاں قومی اسمبلی کے پانچ حلقے ہیں جب کہ این اے 71 میں کل پانچ لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔

نو مئی 2023 کے واقعات کے بعد عثمان ڈار مسلسل منظر عام سے غائب رہے اور پھر اچانک نجی ٹی وی چینل ’دنیا نیوز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔

انہوں نے اس حلقے سے الیکشن لڑنے کے لیے کاغذات نامزدگی بھی جمع نہیں کروائے نہ ہی کسی اور سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی۔

اس اعلان سے ان کی والدہ ریحانہ ڈار نے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے خواجہ آصف کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا۔

جیسا کہ بیشتر دوسرے حلقوں میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی اشتہاری اور کھلے عام انتخابی مہمات نہ ہونے کے برابر ہیں، ایسے ہی یہاں بھی صورت حال مختلف نہیں۔ یہاں تک کہ مسلم لیگ ن کے امیدوار سمیت تمام امیدواروں کے انتخابی دفاتر پر بینرز، اشتہارات اور پارٹی پرچم لگے ہوئے ہیں لیکن ریحانہ ڈار کے مرکزی دفتر جناح ہاؤس پر لگے بینرز، پوسٹرز، اشتہارات اور پارٹی پرچم مبینہ طور پر ضلعی انتظامیہ کے اہلکار اتار دیتے ہیں۔

وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مختلف علاقوں میں جا کر ڈور ٹو ڈور مہم چلا رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ورکرز کنونشن بھی منعقد کرنے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی کارنر میٹنگ کی جا سکتی ہے۔

دوسری جانب خواجہ آصف کی رہائش گاہ سیالکوٹ کینٹ میں واقع ہونے کے باوجود دیواروں پر بڑے بڑے پینا فلیکس اور پوسٹرز آویزاں ہیں۔

انتخابی مہم کے دوران امیدواروں کے سیاسی ڈیروں اور الیکشن دفاتر میں خوب رش دکھائی دیتا ہے لیکن جناح ہاؤس میں گرم گرم کھابے تیار ہونے کے باوجود کھانے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ ان کے دفتر اور رہائش گاہ پر موجود ان کے حامیوں میں بھی کافی خوف و ہراس دیکھا گیا۔

لیکن جب ریحانہ ڈار سے ملاقات ہوئی تو وہ کافی بہادر اور ڈٹی ہوئی دکھائی دیں۔ ان کے بقول: ’میں قرآن کا درس دیتی ہوں اور گھریلو خاتون ہوں۔ اپنے لیڈر اور بیٹوں پر مشکل وقت کے باعث مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ چیلنج کرتی ہوں کہ خواجہ آصف جو مرضی کر لیں، ڈرنے والی نہیں۔ ان کو شکست دے کر رہوں گی۔‘

ریحانہ ڈار کا انتخابی نشان جھولا بھی تحریک انصاف کے پرچم کے سبز اور سرخ رنگوں سے مزین گھر میں ہی پڑا ہوا تھا۔

خواجہ آصف سے ملاقات بازار میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے ہوئی، جہاں تاجر برادری ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کر رہی تھی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کا گراف کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’سیالکوٹ کے ہر بڑے منصوبے پر نواز شریف کی تختی لگی ہے۔ لوگوں کو اس کا اندازہ ہے۔ یہاں کے ووٹرز نواز شریف سے پیار کرتے ہیں انہیں وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔‘

انتخابات میں کامیابی کے امکانات سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا: ’اللہ خیر کرے گا۔‘

مہم کے دوران وہ کامیابی کے لیے پر امید تو تھے لیکن پہلے کی طرح پر یقین یا پراعتماد دکھائی نہیں دیے۔ انتخابی نتائج جو بھی ہوں لیکن ایک جانب بھر پور تشہیری اور انتخابی مہم جب کہ دوسری جانب محدود سرگرمیوں کے ساتھ سخت ترین مقابلہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست