پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات میں تقریباً ایک ہفتہ باقی تھا جب مجھے لگا کہ کیوں نہ پاکستان کی تین بڑی پارٹیوں، پی ٹی آئی، پی پی پی اور پی ایم ایل این کے مقامی ورکرز سے مل کر جانا جائے کہ وہ برطانیہ میں رہتے ہوئے، وطن میں جاری انتخابی مہم میں کس طرح حصہ ڈال رہے ہیں؟
2021 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، انگلینڈ اور ویلز میں 16 لاکھ سے زائد پاکستانی نژاد شہری رہتے ہیں جو کل آبادی کا دو اعشاریہ سات فیصد ہیں۔ یہ شرح یورپ کے کسی ملک میں پاکستانی نژاد باشندوں کی سب سے بڑی تعداد ہے جبکہ برطانیہ میں برٹش انڈینز کے بعد دوسری بڑی نسلی اقلیت ہے۔
پاکستانی تارکین وطن کی مقامی سیاست میں نمائندگی بھی تیزی سے بڑھی ہے، خصوصاً 2019 میں برطانوی پارلیمنٹ کے لیے ریکارڈ 15 اراکین منتخب ہوئے۔
اتنی بڑی تعداد میں تارکین وطن کی آبادی کے سبب حیرانی کی بات نہیں کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں برطانیہ میں خاصی فعال ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزید جاننے کے لیے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ریلی میں گئی۔ پارٹی کے لیڈر عمران خان، متعدد مقدمات میں سزا ملنے کے بعد آج کل پاکستان کی جیل میں قید ہیں۔ انتخابی مہم کے لیے پارٹی کے نشان ’بلے‘ پر بھی پابندی ہے۔ پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار آزاد حیثیت میں مختلف انتخابی نشانات کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور ان کا الزام ہے کہ انتخابی مہم کے دوران جلسوں، جھنڈوں اور بینروں کی نمائش وغیرہ جیسی عمومی سرگرمیوں کے لیے بھی حکام نے ان کا قافیہ تنگ کر رکھا ہے۔
چونکہ پاکستانی پابندیوں کا اطلاق برطانیہ میں ممکن نہیں اور یہاں کا جمہوری نظام سیاسی سرگرمیوں کی روک ٹوک کی اجازت نہیں دیتا، چنانچہ پی ٹی آئی کے چاہنے والے یہاں پر کھل کر سرعام اپنے ’بلے‘ اور جھنڈوں کی نمائش کرنے کے ساتھ ساتھ وطن میں جاری انتخابی مہم میں کردار ادا کر رہے ہیں۔
اتوار 28 جنوری کو پی ٹی آئی لندن کے کارکن شہر کے مختلف حصوں سے کار ریلیوں کی صورت میں مغربی علاقے ساؤتھال میں جمع ہوئے جہاں ساؤتھ ایشینز بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ کئی گھنٹوں تک مرکزی سڑک کے کنارے پی ٹی آئی کے ترانے کارکنوں کی گاڑیوں میں گونجتے رہے۔ کئی مرد اور خواتین ورکرز اپنے بچوں کو بھی ساتھ لائے اور خوب رونق لگائے رکھی۔
پی ٹی آئی لندن کے سوشل میڈیا سیل کے صدر فیصل راؤ نے بتایا کہ ’کار ریلی کے ایونٹ کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ اوورسیز پاکستانی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
پارٹی کے مقامی صدر وقاص ساگر کے مطابق اپریل 2022 میں پاکستان میں عمران خان کی حکومت ختم کیے جانے کے بعد سے، پی ٹی آئی لندن نے 70 سے زائد احتجاجی مظاہرے کیے ہیں اور اپنی آواز ہر انٹرنیشنل فورم پر پہنچائی ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ حالیہ مہینوں میں، جب سے عام انتخابات کی دوڑ شروع ہوئی ہے تو پارٹی کی برطانوی شاخ کے سوشل میڈیا سیل نے، پاکستان میں لگائی گئی پابندیوں کو کاؤنٹر کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
وقاص ساگر کے بقول جیل میں ہونے کے باوجود، ان کے لیڈر عمران خان کا خطاب، آرٹیفیشل انٹیلجینس کے ذریعے تیار کر کے سوشل میڈیا پر جاری کرنے کا سہرا بھی پی ٹی آئی لندن کے سر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم ’ایسی چیزیں بنا رہی ہے جو وہ کنٹرول نہیں کر سکتے۔‘
پی ٹی آئی کی رنگا رنگ اور پررونق ریلی کے دو دن بعد، 30 جنوری کو مجھے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے عشائیے میں جانے کا موقع ملا جس کا انتظام مشرقی لندن کے علاقے اِلفرڈ کے ایک ترک ریسٹورنٹ میں کیا گیا تھا۔ یہ عشائیہ چند برٹش پاکستانیوں کے اعزاز میں رکھا گیا تھا جنہوں نے پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور انہیں مقامی عہدوں سے نوازا گیا۔
پی پی پی کے برطانیہ میں صدر محسن باری نے بتایا کہ لندن میں رہتے ہوئے پاکستان میں جاری انتخابات کی مہم میں حصہ ڈالنے کے لیے ان کے ساتھی، ’یہاں پر جو پاکستانی کمیونٹی رہتی ہے، اسے متحرک کر رہے ہیں کہ وہ اپنے حلقوں میں اپنے رشتہ دراوں کو قائل کریں تاکہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ ڈالیں۔‘
ان کے بقول، پنجاب سے تعلق رکھنے والے بیشتر پارٹی ورکرز لاہور گئے ہیں اور وہاں کے حلقہ این اے 127 کی انتخابی مہم میں مقامی کارکنوں کی مدد کر رہے ہیں کیونکہ اس حلقے سے پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پہلی مرتبہ الیکشن لڑ رہے ہیں۔
اسی طرح پاکستان کی ایک اور بڑی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کی مقامی قیادت سے وٹس ایپ پر رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ ان کے لندن کے بیشتر عہدیدار اور ورکرز بھی مہم میں شریک ہونے کے لیے پاکستان جا چکے ہیں۔ کوئی قابل ذکر ایونٹ یا انٹرویو نہ ملنے پر سوچا کہ کیوں نہ وسطی لندن میں ایون فیلڈ ہاؤس کا چکر لگایا جائے کہ شاید وہیں کوئی انتخابی گہماگہمی دیکھنے کو ملے۔
وہاں پہنچی تو گلی میں ایسی خاموشی تھی جو شاید گذشتہ سال اکتوبر تک تصور بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ پی ٹی آئی کے ورکرز ہر آئے دن اسی گلی میں ایون فیلڈ ہاؤس کے باہر احتجاج کیا کرتے تھے کیونکہ یہاں پی ایم ایل این کے لیڈر میاں نواز شریف رہائش پذیر تھے۔ ان کے بیٹے یہاں مستقل رہتے ہیں البتہ میاں نواز شریف چار سال قبل یہاں رہنے کے لیے آئے جب مقامی عدالت نے انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی، حالانکہ اس وقت وہ کرپشن متعدد مقدمات کی وجہ سے جیل میں قید تھے۔
بالآخر وہ اکتوبر 2023 میں وطن واپس گئے اور چوتھی مرتبہ وزارت اعظمیٰ سنبھالنے کی خاطر پاکستان میں انتخابی مہم سے قیادت کر رہے ہیں۔ ایون فیلڈ ہاؤس کے گرد و نواح میں کوئی بینر، بورڈ یا جھنڈا دکھائی نہیں دیا جس سے لگے کہ یہاں پاکستان کی صف اول کی جماعتوں میں سے ایک کے لیڈر رہائش پذیر رہے ہیں۔
لندن کے پی ٹی آئی ورکرزنے بھی ایون فیلڈ ہاؤس تو آنا چھوڑ دیا ہے لیکن ساؤتھال کی ریلی اور سوشل میڈیا پر مہم چلا کر انہوں نے آٹھ فروری کے انتخابات کے لیے دیگر جماعتوں کے ورکرز کی نسبت سب سے متحرک اور منظم کردار ادا کیا ہے۔