نگراں حکومت کی جانب سے گذشتہ دنوں سرکاری اداروں کی نجکاری اور انتظامی اصلاحات سے متعلق خبریں سامنے آئیں، جس سے یہ ابہام پیدا ہوا کہ سابق حکومت نگراں حکومت کو ’بڑے پالیسی فیصلے‘ کرنے کا اختیار آئینی ترمیم کے ذریعے دے کر گئی تھی۔
تاہم الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کہتے ہیں کہ نگران حکومت کو صرف انٹرنیشنل معاہدوں جیسے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے معاہدوں کے اختیارات دیے گئے تھے تاکہ ان پر عملدرآمد میں کوئی دشواری پیش نہ آئے لیکن روزمرہ کے معاملات میں کسی قسم کی انتظامی یا مالی اصلاحات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
نگراں حکومت کی جانب سے سرکاری اداروں کی نجکاری اور اصلاحات کرنے سے متعلق سیکریٹری الیکشن کمیشن ڈاکٹر آصف حسین نے سیکریٹری کابینہ ڈویژن کامران علی افضل کو خط لکھا ہے، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب ہے۔
خط میں کہا گیا کہ ’پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے سلسلے میں کابینہ کی منظوری کے لیے تیار کردہ تمام دستاویزات پہلے الیکشن کمیشن کو جائزے کے لیے فراہم کی جائیں اور الیکشن کمیشن کی جانب سے فیصلے تک نگراں حکومت پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے معاہدے پر دستخط کرنے سے اجتناب کرے۔‘
دوسری جانب فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں اصلاحات سے متعلق بھی سیکریٹری الیکشن کمیشن نے وزیراعظم کے سیکرٹری کو خط لکھا ہے، جس میں کہا گیا کہ ’شائع شدہ خبروں کے مطابق نگراں حکومت آرڈیننس کے ذریعے ایف بی آر میں اہم اصلاحات کا فیصلہ کر رہی ہے۔ ابھی ایف بی آر میں اصلاحات نہ کی جائیں بلکہ یہ کام عام انتخابات کے بعد منتخب حکومت کے لیے چھوڑ دیا جائے۔‘
خط میں مزید کہا گیا کہ ’ایف بی آر کی اصلاحات ایک اہم پالیسی فیصلہ ہے، جو صرف منتخب حکومت کا ہی اختیار ہے۔‘
اس حوالے سے الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کہتے ہیں کہ نگران حکومت کو صرف انٹرنیشنل معاہدوں جیسے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے معاہدوں کے اختیارات دیے گئے تھے تاکہ ان پر عملدرآمد میں کوئی دشواری پیش نہ آئے لیکن روزمرہ کے معاملات میں کسی قسم کی انتظامی یا مالی اصلاحات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کنور دلشاد نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کی جانب سے نگران وزیراعظم کو جو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ اگلی حکومت کے لیے چھوڑ دیا جائے، وہ بالکل درست ہے، اس لیے کہ نگران حکومت کو جو اختیارات دیے گئے تھے ان میں کہا گیا تھا کہ عالمی سطح کے جو معاہدے ہیں، جیسے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سابقہ حکومت کر چکی ہے، اس پر عمل درآمد کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔
اس پر ان کو الیکشن ایکٹ کی سیکشن 230 میں ترمیم کرکے اختیارات دے گئے تھے۔ ان کو یہ نہیں کہا گیا تھا کہ وہ نجکاری کریں، پرائیویٹائزیشن کریں، وہ اختیارات نگران حکومت کو نہیں دیے گئے تھے، اسی لیے الیکشن کمیشن نے انہیں ہدایات جاری کی ہیں۔‘
کنور دلشاد نے مزید کہا: ’ایف آئی اے میں جو انتطامی اصلاحات ہو رہی ہیں، اس پر بھی الیکشن کمیشن نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آپ کے مینڈیٹ کے خلاف ہے۔ آپ صرف روزمرہ کے معاملات پر عملدرآمد کرنے کے مجاز ہیں۔ ازسرنو کسی قسم کی قانون سازی یا انتظامی اصلاحات کرنا آپ کے مینڈیٹ میں نہیں ہے اور الیکشن ایکٹ کی سیکشن 230 کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ بھی درست ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اسی طرح الیکشن کمیشن نے صوبائی حکومتوں کو بھی ہدایات جاری کی ہوئی تھیں کہ وہ روزمرہ کے معاملات خوش اسلوبی سے پورے کر دیں لیکن کوئی قانون سازی نہ کی جائے۔ اسی طرح پنجاب حکومت کو بھی یہ کہا گیا تھا کہ سابقہ حکومت کے دور میں جو تعمیری کام رک گئے تھے، ان پر آپ عملدرآمد کرلیں۔ یہ ان کا ایک فیصلہ ہے اور درست اقدام ہے۔‘
پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ
انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب معلومات کے مطابق مبینہ طور پر نگران وزارت نجکاری نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے روز ویلٹ ہوٹل کی امریکی کنسورشیم کے ساتھ معاہدہ کیا ہے جس کی دستاویز کو وفاقی کابینہ میں پیش کیا جانا ہے۔
رواں ماہ کے آغاز میں ہی نگران وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد نے پی آئی اے کی فروخت کے حوالے سے سوال پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا: ’ہمارا کام 98 فیصد ہو چکا ہے، بقیہ دو فیصد کام کو صرف کابینہ کی منظوری کے بعد ایکسل شیٹ پر لانا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا تھا: ’ہم نے صرف چار مہینوں میں جو کچھ کیا ہے، ماضی کی حکومتیں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے یہ سب کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔‘
تاہم الیکشن کمیشن نے اس نجکاری معاہدے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ ’الیکشن ایکٹ 2017 کی سیکشن 230 کے تحت ان فیصلوں کا جائزہ لیا جائے گا۔‘
ایف بی آر میں اصلاحات
فیڈرل بورڈ آف ریونیو بنیادی طور پر اِن لینڈ ریونیو سروس اور کسٹم سروس کے گروہوں پر مشتمل ادارہ ہے۔ دونوں گروپ ٹیکس کے معاملات کو دیکھتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب معلومات کے مطابق ایف بی آر اصلاحات میں دونوں گروپوں کو الگ کر کے فیڈرل کسٹم بورڈ اور فیڈرل اِن لینڈ ریونیو بورڈ بنانے کی تجاویز دی گئی ہیں اور وفاقی کابینہ کے اجلاس نے اصلاحات کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی قائم کر دی ہے۔
گذشتہ ماہ 23 جنوری کو نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ نگران وفاقی کابینہ نے ایف بی آر کی ری سٹرکچرنگ اور ڈیجیٹائز یشن کے حوالے سے پیش کی گئی تجاویز پر کابینہ اراکین کی آراء کی روشنی میں نگران وفاقی وزیر خزانہ کی سربراہی میں ایک بین الوزارتی کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کی۔
کمیٹی کے دیگر اراکین میں وفاقی وزرا برائے نجکاری، خارجہ امور، تجارت، توانائی، قانون و انصاف اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل ہوں گے۔ کمیٹی ان تجاویز کے حوالے سے اپنی سفارشات وفاقی کابینہ کے اگلے اجلاس میں پیش کرے گی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’وزیراعظم اور کابینہ کے تمام اراکین نے مشترکہ طور پر ایف بی آر اصلاحات کے حوالے سے ان تجاویز کی تائید کرتے ہوئے اس مؤقف کا اعادہ کیا کہ نگران حکومت ایف بی آر اصلاحات کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔‘
نگراں حکومت کے اختیارات
گذشتہ برس حکومت کی مدت مکمل ہونے سے چند دن قبل 26 جولائی 2023 کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ 2017 کی سیکشن 230 میں 54 ترامیم کثرت رائے سے منظور کی گئی تھیں، جس کے تحت نگراں حکومت روزمرہ کے امور نمٹانے کے ساتھ ساتھ پہلے سے جاری منصوبوں اور پروگراموں سے متعلق اختیارات استعمال کر سکے گی اور اہم پالیسی فیصلے لے سکے گی۔
نگراں حکومت کے قیام کے بعد الیکشن کمیشن نے اس کے اختیارات میں اضافے سے متعلق جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’سیکشن 230 میں ترامیم کے تحت نگراں حکومتیں الیکشن کمیشن کی آگاہی سے دو طرفہ یا کثیر الفریقی معاہدہ یا فیصلے کے تحت اقدامات کر سکیں گی۔
اسی طرح ’نگراں حکومتیں جاری معاہدوں پر اقدامات کر سکیں گی، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی ایکٹ، بین الحکومتی کمرشل ٹرانزیکشنز ایکٹ کے تحت جاری منصوبوں پر اقدامات کی بھی انہیں اجازت ہو گی جبکہ نگران حکومتیں نجکاری کمیشنز آرڈیننس کے تحت جاری معاہدوں اور منصوبوں پر بھی فیصلے کر سکیں گی۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔