آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ صوبائی اسمبلی کے 60 اور قومی اسمبلی کے 30 فیصد نئے امیدواروں نے غیرحتمی نتائج کے مطابق کامیابی حاصل کی ہے۔
صوبائی اسمبلی میں کامیاب ہونے والے پی ٹی آئی کے 87 امیدواروں میں سے 64 امیدوار نئے ہیں، جو پہلی مرتبہ اسمبلی جائیں گے۔
اسی طرح خیبر پختونخوا میں پی آئی ٹی کے قومی اسمبلی کے 37 امیدواروں میں سے 11 نئے امیدوار ہیں جو پہلی مرتبہ اسمبلی جائیں گے جبکہ باقی امیدوار یا تو 2018 یا 2013 کے عام انتخابات میں قومی یا صوبائی اسمبلی کے اراکین رہ چکے ہیں۔
اگر مجموعی طور پر صوبائی اور قومی اسمبلی کی بات کی جائے تو پی ٹی آئی نے تقریباً 50 فیصد نئے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے تھے لیکن بعد میں عدالتی فیصلے کے مطابق تمام امیدواروں نے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا۔
اگر اضلاع کی سطح پر بات کی جائے تو سوات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ صوبائی اسمبلی کے جیتنے والے آٹھ امیدواروں میں سے پانچ نئے امیدوار ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چترال کے دونوں صوبائی امیدوار نئے ہیں، جن میں سے ایک خاتون ثریا بی بی بھی ہیں۔ ثریا بی بی چترال سے پہلی مرتبہ جنرل نشست پر صوبائی اسمبلی کی امیدوار منتخب ہوئی ہیں۔
شمالی و جنوبی وزیرستان سے صوبائی اسمبلی کے کامیاب تین امیدوار نئے ہیں جبکہ ضلع لوئر دیر کے نو منتخب سات امیدواروں میں سے تین نئے ہیں۔
اسی طرح ضلع مانسہرہ کے سات نو منتخب امیدواروں میں سے تین نئے امیدوار ہیں۔ چارسدہ کے پانچ میں سے دو امیدوار نئے ہیں، ضلع خیبر میں جیتنے والے تینوں امیدوار نئے ہیں۔
لکی مروت میں دو صوبائی امیدوار جیتے ہیں اور دونوں نئے ہیں جبکہ مردان میں آٹھ جیتنے والے صوبائی امیدواروں میں سے پانچ نئے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار اور مبصرین اس ٹرینڈ کو پاکستانی سیاست میں ایک مثبت اشاریہ سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق بعض سیاسی جماعتیں الیکٹیبلز یعنی بار بار انتخابات میں حصہ لینے والے افراد کو ٹکٹس دیتی ہیں اور نئے لوگوں کو موقع نہیں دیا جاتا۔
عادل شاہ زیب ’ڈان نیوز‘ کے ایک حالات حاضرہ کے پروگرام کے میزبان ہیں اور سیاسی معاملات پر نظر رکھتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ بات خوش آئندہ ہے کہ اس دفعہ بھی پی ٹی آئی نے نئے چہروں کو نہ صرف ٹکٹ دیے بلکہ وہ لوگ اب پارلیمان کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔
عادل نے بتایا کہ اس کی ایک مثال پشاور سے پی ٹی آئی یوتھ ونگ کے مینا خان آفریدی ہیں، جو ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کارکن ہیں اور اب وہ خیبرپختونخوا اسمبلی کا حصہ بنیں گے۔
انہوں نے بتایا: ’تحریک انصاف کی طرز سیاست سے کوئی متفق ہو یا نہ ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ نوجوان ووٹرز کو متوجہ کرنا ہو یا پھر نوجوان اور نئے چہروں کو الیکٹیبلز پر فوقیت دے کر اسمبلی میں پہنچانا ہو، ان کو اس معاملے میں دوسری بڑی جماعتوں پر فوقیت حاصل ہے۔‘
فرزانہ علی پشاور میں ’آج نیوز‘ کی بیورو چیف ہیں اور وہ بھی سمجھتی ہیں کہ نئے چہرے اسمبلی میں سامنے آنا بہت اچھا ہے لیکن اب ان نئے لوگوں کو کام بھی کرنا ہوگا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ نظام بدلنے کے لیے الیکٹیبلز کے علاوہ نئے چہروں کو سامنے آنا ہوگا اور پی ٹی آئی نے یہ کر کے دکھایا اور اس میں خواتین کا آنا بہت خوش آئند ہے۔
بقول فرزانہ: ’نئے چہروں میں نوجوانوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے لیکن اب ان نوجوانوں کو اپنے بڑوں کو دیکھ کر جذباتی پن چھوڑ کر آگے بڑھنا ہوگا تاکہ مشکلات سے دوچار خیبر پختونخوا کے مسائل حل کر سکیں۔‘
اس سوال پر کہ کیا پرانے امیدواروں کے مقدمات کے باعث پی ٹی آئی نے مجبوری کی تحت نئے لوگوں کو ٹکٹ دیا تھا؟ فرزانہ نے جواب دیا: ’مجبوری بھی ہو سکتی ہے کیونکہ سارے مشکل میں تھے لیکن عمران خان جب زمان پارک میں تھے تو وہ ہمیشہ نوجوانوں کو اپنی طاقت سمجھتے تھے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔