متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) لندن نے ملک بھر میں اپنے قومی اور صوبائی اسمبلی کے آزاد امیدواروں کے ناموں کا اعلان پیر کو کیا جس کے بعد ایم کیو ایم پاکستان نے بھی اس پر اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن میں ’چند ووٹ توڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘
ایم کیو ایم لندن نے قومی اسمبلی کی 27 اور صوبائی اسمبلی کی 53 نشستوں پر آزاد امیدواروں کا اعلان کیا ہے، بانی ایم کیو ایم اور لندن رابطہ کمیٹی کی ہدایت کے بعد کراچی سمیت سندھ کے دیگر علاقوں سے آزاد امیدواروں کو ایم کیو ایم لندن کی سپورٹ حاصل ہوگی۔ ان امیداروں کو مختلف نشانات دیے گئے۔
ایم کیو ایم پاکستان عام انتخابات 2024 میں مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) سے کئی نشستوں پر اتحاد کر رہی ہے، لیکن چار فروری کو اپنے امیدوار سامنے لانے والی ایم کیو ایم لندن بھی حکمت عملی کے ساتھ انتخابی میدان میں آگئی ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ آصف علی زرداری کے شہر اور پیپلز پارٹی کے گڑھ نوابشاہ، خورشید شاہ کے ضلع سکھر اور آغا سراج درانی کے شہر شکار پور سے بھی ایم کیو لندن کے حمایت یافتہ امیدوار سامنے آئے ہیں۔
2024 کے الیکشن سندھ، اور بالخصوص کراچی میں بڑی ہی دلچسپ صورت حال اختیار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
اسی حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’ایم کیو ایم لندن کے امیدواروں کا ایم کیو ایم پاکستان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
’الیکشن لڑنا سیاست میں آنا سب کا حق ہے، ہم کسی کو نہیں روک سکتے ان کے حق سے، لیکن ایم کیو ایم لندن پوزیشن نہیں بنا سکی گی جس کی بڑی وجہ انتخابی نشان کا الگ الگ ہونا ہے اور ایم کیو ایم لندن کی سیاسی مہم بھی نہیں چلی۔ کچھ ووٹ توڑنے کا کیا فائدہ ہوگا؟‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان اور کراچی کو بچانے اور اپنانے کی کوشش ہونی چاہیے۔ ایم کیو اجم پاکستان اس وقت گراؤنڈ پر ہے اور ایم کیو ایم پاکستان کا ان سے کیا مقابلہ بلکہ آزاد امیدواروں اور اُںہیں لانے والوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘
سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی فیصل حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے تجزیے میں بتایا کہ ’گذشتہ روز آزاد امیواروں کے اعلان کے بعد سیاست میں نیا موڑ آگیا ہے جس سے ایم کیو ایم پاکستان کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچے گا۔ کل سے سوشل میڈیا پر گرما گرمی شروع ہو گئی۔ نئے آزاد امیدواروں نے بڑی تیزی کے ساتھ چند گھنٹوں میں انتخابی نشان کو ووٹرز تک پہنچا دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انہیں مہم چلانے دی جاتی ہے یا نہیں؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فیصل حسین کے مطابق: ’کراچی کی سیاست میں ڈرامائی تبدیلی آچکی ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لیکن اس کا نقصان ایم کیو ایم پاکستان کو ہوگا، اس جماعت نے جو بائیکاٹ کے الزام لگائے وہ بھی کل کے بعد سے غلط ثابت ہوگئے جب نئے آزاد امیدوار میدان میں سامنے آئے۔‘
صحافی اسلم خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’ایم کیو ایم لندن کا کراچی اور سندھ میں ووٹ بینک موجود ہے۔ بانی ایم کیو ایم کا اثرورسوخ نظر آتا ہے۔ متعدد بار بائیکاٹ کی اپیل بھی کی لیکن یہ پہلے الیکشن ہیں جس میں وہ کھل کر سامنے آئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عام انتخابات میں ٹرن آؤٹ کم رہتا ہے۔ لیکن اس بار جب ایم کیو ایم لندن نے آزاد امیدوار میدان میں اُتارے ہیں تو دیکھنا ہوگا کہ کتنی بڑی تعداد میں کراچی، سکھر، حیدرآباد، میرپورخاص اور ملتان میں اُنہیں ووٹ ملتے ہیں۔ ’یہ ایم کیو ایم پاکستان نہیں بلکہ ایم کیو ایم لندن کے لیے ٹیسٹ کیس ہے کہ وہ اب بھی اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہے، لیکن بظاہر لگتا نہیں کہ ایم کیو ایم لندن بڑا دھچکا پہنچا سکتی ہے۔ ووٹ کے لیے نکلنے والے نوجوانوں اور ایم کیو ایم لندن کے قائد میں فاصلہ بڑھ چکا ہے جسے ختم کرنا شاید ممکن نہیں۔‘
دوسری جانب ایم کیو ایم لندن نے جن امیدواروں کو نامزد کر کے نشانات دیے گئے ہیں ان میں: کراچی میں این اے 229 سے شازیہ صبوحی، این اے 232 سے آفتاب بقائی، این اے 234 سے غلام محمد بنگلانی، این اے 236 سے امیدوار سعدیہ غوری ایڈووکیٹ، این اے 235 سے انور خان ترین، این اے237 سے غلام علی، این اے 238 سے شعیب اختر شامل ہیں۔
حیدرآباد قومی اسمبلی کی نشست این اے 219 سے مومن خان مومن، این اے 220 سے سابق رکن قومی اسمبلی رشید احمد خان عرف بھیا، سانگھڑ قومی اسمبلی کی نشست این اے 210 سے امیدوار عطا محمد شیخ ایڈووکیٹ، این اے 217 سے خالد خانزادہ، میرپور خاص این اے 211 سے منظور احمد قائم خانی کا اعلان کیا گیا ہے۔