ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ بیوٹی پراڈکٹس کی بڑھتی ہوئی مانگ گدھوں کی آبادی کو شدید متاثر کر رہی ہے اور افریقہ میں اس کی نسل مٹنے کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے۔
ہر سال تقریباً 60 لاکھ گدھوں کو ان کی کھالوں کے لیے مار دیا جاتا ہے جن سے فوڈ اور ڈرنک سپلیمنٹس اور بیوٹی پراڈکٹس جیسے چینی ادویات میں استعمال ہونے والی چہرے کی کریموں میں استعمال کے لیے کولیجن نکالا جاتا ہے۔
بعد ازاں انہیں لگژری مصنوعات کے طور پر مارکیٹ کیا جاتا ہے۔ گدھوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’دا ڈونکی سینکچری‘ کے مطابق چین میں گدھوں کی آبادی کو اس طرح کی مصنوعات کی مقبولیت میں اضافے سے شدید نقصان پہنچا، جہاں اس جانور کی آبادی 1992 سے 2019 کے درمیان 76 فیصد تک کم ہو گئی۔
ڈیلرز اب افریقہ کا رخ کر رہے ہیں جہاں طویل عرصے سے دنیا میں سب سے زیادہ گدھوں کی تعداد موجود ہے، لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اب یہاں بھی ان کی نسل کو بحران کا سامنا ہے۔
تاجر یا تو غریب مالکان کو اپنے گدھے بیچنے پر آمادہ کرتے ہیں یا انہیں غیر قانونی ذبح کے لیے چوری کرتے ہیں۔
We've just released new figures showing that growing demand for ejiao is putting of donkeys at risk of slaughter for their skins.
— The Donkey Sanctuary (@DonkeySanctuary) February 16, 2024
Find out how you can help stop their suffering and end the brutal donkey skin trade https://t.co/Cbo2HR1LBz pic.twitter.com/GxXAsZrIHu
یہ تجارت روایتی چینی دوا ’ایجیاو‘ یا گدھے کی کولیجن کی بڑھتی ہوئی مانگ سے پھل پھول رہی ہے۔
اس دوا کے بنانے والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ جھریوں اور خون کی کمی کو دور کرتی ہے اور جسم میں توانائی اور جنسی خواہش کو بڑھاتی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ جانوروں کو ان کی کھالوں کے لیے مارنا نہ صرف انتہائی ظالمانہ ہے بلکہ ان خواتین، بچوں اور برادریوں کو بھی مالی نقصان پہنچاتا ہے جو ان جانوروں پر انحصار کرتے ہیں۔
’دا ڈونکی سینکچری‘ کے محققین نے بیوٹی پراڈکٹس کی صنعت اور شماریاتی ماڈل کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے حساب لگایا کہ گدھے سے بننے والی مصنوعات کی طلب کی رفتار اسی طرح برقرار رہی تو 2027 تک 67 لاکھ کھالوں کی ضرورت ہوگی۔
یہ آج استعمال ہو نے والی 59 لاکھ کھالوں سے زیادہ ہے لیکن محققین کا کہنا ہے کہ یہ تعداد ان کا سب سے معتدل تخمینہ ہے۔
افریقہ میں گدھوں کی آبادی تقریباً ایک کروڑ 10 لاکھ ہے، اس لیے نئے حساب کتاب نے ان کی نسل کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
نئی رپورٹ میں کہا گیا کہ 2016 سے2021 تک پانچ سالوں میں کولیجن کی پیداوار میں 160 فیصد اضافہ ہوا۔
رپورٹ کا مزید کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم یہ مصنوعات بیچنے والوں کو اشتہار دینے کی اجازت دے کر غیر قانونی تجارت میں سہولت فراہم کرتے ہیں۔
کینیا میں ’دا ڈونکی سینکچری‘ کے ڈائریکٹر کیلون سولومن اونیاگو نے کہا: ’چینی دوا ایجیاؤ انڈسٹری کے لیے کام کرنے والے ایجنٹ لوگوں کو، جو پہلے سے ہی غربت کے دہانے پر زندگی گزار رہے ہیں، اپنے جانوروں کو قلیل مدتی فائدے کے لیے بیچنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس حقیقت میں یہ ان کی آمدنی کے لیے طویل مدتی تقصان کا باعث ہے اور بہت سی برادریوں کے لیے زندگی بھر کا نقصان ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’تجارت کے تباہ کن اثرات کے بعد کینیا، نائجیریا اور تنزانیہ سمیت متعدد ممالک کی حکومتوں کو گدھے کے ذبیح کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
’تاہم ہم ان کی وسیع پیمانے پر غیر قانونی ہلاکتیں دیکھ رہے ہیں جہاں جنگلوں میں سینکڑوں گدھوں کو لے جایا گیا یا چوری کیا گیا اور ان کی کھال کے لیے انہیں ذبح کیا گیا۔‘
ڈاکٹر اونیاگو نے کہا کہ ’ہم نے یہاں کینیا میں جو کچھ دیکھا اس کی بنیاد پر اگر گدھوں کا قتل عام اسی شرح سے جاری رہا تو مزید تین سے چھ سالوں میں گدھے افریقہ میں معدومیت کے خطرے سے دوچار نسل کے طور پر گینڈے اور ہاتھیوں کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے۔‘
کچھ ممالک میں گدھوں کو مارنا غیر قانونی ہے لیکن دیگر میں یہ قانونی ہے۔
اتوار کو افریقی یونین کے سربراہان مملکت اس بات پر بحث کریں گے کہ آیا پورے براعظم میں گدھوں کو ذبح کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔
محققین نے کہا کہ یہ براعظم افریقہ میں گدھوں کے تحفظ کا اب تک کا سب سے اہم اقدام ہوگا۔
برازیل میں، جہاں بڑی تعداد میں گدھوں کو سمگل کیا جاتا ہے اور ان کی کھالوں کے لیے مارا جاتا ہے، توقع ہے کہ ان کے ذبح کرنے پر پابندی کا بل اس سال نیشنل کانگریس سے منظور ہو جائے گا۔
’دا ڈونکی سینکچری‘ کی چیف ایگزیکٹیو ماریانے سٹیلے نے کہا: ’ہر سال ساٹھ لاکھ گدھوں کو ذبح کرنا ان جانوروں کی فلاح و بہبود کی تباہی ہے۔‘
ان کے بقول: ’گدھے دنیا کے کچھ مشکل ترین ماحول میں رہنے والے لوگوں کے لیے ایک لائف لائن ہیں جہاں ایک گدھے کا نقصان ان کی بقا اور بدحالی کے درمیان فرق ثابت ہو سکتا ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent