گدھوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی ایک برطانوی تنظیم کی جانب سے جاری نئی رپورٹ نے کھالوں کے لیے گدھوں کی فارمنگ کے معاشی فوائد کے بارے میں جھوٹے دعوؤں کو بے نقاب کیا ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے ’دا ڈونکی سینکچری‘ نامی غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گدھوں کی کھال کے لیے فارمنگ کرنا کوئی قابل عمل کاروباری ماڈل نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق: ’اس سے بھی بدتر صورت حال یہ ہے کہ وسیع پیمانے پر فارمنگ گدھوں اور انسانوں دونوں میں متعدی بیماریوں کے امکان کو بڑھا کر انسانی جانوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں چین کے روایتی طبی شعبے ’ایجیاؤ‘ میں گدھے کی کھالوں کو ادویات میں استعمال کرنے سے ان کی مانگ میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
چین روایتی اداویات میں بے دریغ استعمال کے بعد اپنی کم ہوتی ہوئی گدھوں کی آبادی کی وجہ سے ان کی کھالوں کی مانگ کو پورا کرنے سے قاصر ہے اور مناسب پیمانے پر ان کی فارمنگ کرنے کی ناکام کوششوں کے بعد ایجیاؤ انڈسٹری دنیا بھر سے گدھوں کی خریداری کر رہی ہے، جس سے کچھ افریقی ممالک میں اس جانور کے وجود کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
’دا ڈونکی سینکچری‘ کے ڈائرکٹر آف ایڈوکیسی ایان کاوسی نے اس بارے میں کہا: ’یہ رپورٹ ہر اس شخص کے لیے ایک سخت انتباہ ہے، جو گدھوں کی فارمنگ کو فوری طور پر دولت کمانے کا حل سمجھتا ہے۔ اس میں اِن پٹ اور اخراجات زیادہ ہیں اور آؤٹ پٹ اور ریٹرن سست اور کم ہیں۔‘
ان کے بقول: ’جو بھی گدھوں کی فارمنگ میں سرمایہ کاری کرنے پر غور کر رہا ہے اسے پوچھنا چاہیے کہ یہ چین سے باہر کیسے بہتر ہو سکتی ہے جب کہ تمام ٹیکنالوجی، وسائل اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے باوجود چینی فارمنگ اب تک ملک میں کھالوں کی مانگ کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘
ہزاروں سالوں سے گدھوں نے انسانی معاشروں میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سخت جان جانور نے کھیتی باڑی سے لے کر مال برداری جیسے مشقت والے کاموں کو بخوبی انجام دے کر انسانوں کی خدمت کی ہے۔
زیادہ کمائی کے لیے چین سے باہر کچھ ممالک اب گدھوں کی فارمنگ پر غور کر رہے ہیں جن کا خیال ہے کہ وہ ایجیاؤ انڈسٹری کو درپیش سپلائی بحران سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں تاہم افریقہ میں کسان خود ایک خطرہ مول لے رہے ہیں کیوں کہ اس فارمنگ میں گدھوں کی افزائش اور کھالوں کو محفوظ بنانے کے اخراجات کسی بھی ممکنہ منافع سے کہیں زیادہ ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ ممالک کئی کام کرنے والے اس جانور کو ہلاک کرنے، عالمی سطح پر اپنی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور متعدی بیماری کے پھیلاؤ میں حصہ ڈالنے جیسے خطرات مول لیتے ہیں۔
یونیورسٹی آف ریڈنگ کی رپورٹ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ گدھوں کی فارمنگ میں پیداوار اور منافع حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق غیر حقیقی طور پر سازگار حالات میں بھی دو لاکھ مادہ گدھوں پر مشتمل ایک فارم کو 12 لاکھ کھالیں فراہم کرنے میں کم از کم 15 سال یا اس سے زیادہ کا وقت لگے گا۔
رپورٹ میں تنزانیہ کے ایک مذبح خانے کے کاروباری ماڈل پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، جس کے مطابق اسے گدھوں کی تعداد 296 سے 683 تک بڑھانے کے لیے چار سال اور 37 لاکھ ڈالر درکار ہیں۔
تنزانیہ کی حکومت نے ملک میں گدھوں کی آبادی میں تیزی سے کمی کو تسلیم کرتے ہوئے گدھوں کو ذبح کرنے اور برآمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔
اس ثبوت کے باوجود گدھوں کی فارمنگ کے حامی اس شعبے میں سرمایہ کاری اور پیداواری تعداد پر ممکنہ منافع کے بارے میں بڑھا چڑھا کر غیر حقیقی دعوے کرتے رہتے ہیں۔
نائیجیریا کے گروپ ’دا ڈونکی سکن پروسیسرز مارکیٹرز اینڈ ایکسپورٹ ایسوسی ایشن‘ کی ایک دلیل سے پتہ چلتا ہے کہ نائیجیریا کے گدھوں کی مارکیٹ تقریباً دو ارب ڈالر سالانہ کما سکتی ہے۔ اس طرح کے دعوے اس غلط مفروضے پر مبنی ہیں کہ بڑی تعداد میں افزائش نسل سے زیادہ جانور حاصل کیے جا سکتے ہیں اور یہ کہ پیداوار فوراً شروع ہو جاتی ہے۔
رپورٹ میں کئی ایسی مثالوں کا ذکر کیا گیا ہے، جہاں گدھوں کے فارم صرف کمیونٹیز سے حاصل کیے گئے گدھوں کو جمع کرنے اور ذبح کرنے سے پہلے انہیں رکھنے کے لیے ٹرانزٹ سٹیشنز کے طور پر کام کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ریجنل کیمپین اینڈ ایڈووکیسی مینیجر فار افریقہ اوٹینو مٹولا نے کہا کہ تنزانیہ میں حالیہ پابندی کی طرح گدھوں کے مستقبل کے تحفظ کے لیے فیصلہ کن کارروائی کی جانی چاہیے۔
ان کے بقول: ’گدھوں کی افزائش اور چھوٹے پیمانے پر پیداوار کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن گدھے وسیع پیمانے پر فارمنگ کے ماڈل کے لیے بالکل موزوں نہیں ہیں۔‘
گدھوں کی پناہ گاہ کے چیف ویٹرنری ایڈوائزر ڈاکٹر جو کولنز نے کہا: ’گدھوں کی کچھ خاص ضروریات کو وسیع فارمنگ کے نظام میں پورا نہیں کیا جا سکتا۔ گدھے چھوٹے گروہوں میں رہنے کے عادی ہوتے ہیں لیکن زیادہ تعداد اور نامناسب حالات میں گدھے بھی بہت زیادہ تناؤ کا شکار ہوتے ہیں، جس سے ایک خطرناک میٹابولک طبی حالت جنم لے سکتی ہے جسے ہائپرلیپیمیا کہا جاتا ہے۔ یہ تناؤ افزائش نسل اور تولیدی شرح کو بھی منفی طور پر متاثر کر سکتا ہے، جس کے نتیجے میں گدھوں کی پیداوار اور منافع متاثر ہوتا ہے۔‘
ان کے بقول: ’ایکوائن انفلوئنزا اور ہرپس وائرس جیسی بیماریوں کے خلاف ویکسینیشن کے بغیر ایک وسیع فارم کے ماحول میں متعدی بیماری کا زیادہ خطرہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ، گھوڑوں کے مقابلے میں یہ پہچاننا اکثر مشکل ہوتا ہے کہ گدھا کب کسی متعدی بیماری میں مبتلا ہے یعنی جب تک اس کا پتہ چلتا ہے تب تک یہ گروہوں کے درمیان اس حد تک پھیل چکا ہوتا ہے، جہاں یہ مرض قابو سے باہر ہوتا ہے اور اس سے نقصان بہت زیادہ ہو سکتا ہے۔‘
ماہرین کے مطابق اب وقت آگیا ہے کہ چین کی ایجیاؤ انڈسٹری سیلولر ایگریکلچر کی تلاش کرے جو ایک پائیدار اور ممکنہ طور پر منافع بخش متبادل کے طور پر گدھے سے حاصل ہونے والے قدرتی مادے کی طرح کولیجن پیدا کر سکتی ہے اور اس سے گدھوں اور ان پر انحصار کرنے والے لوگوں کے لیے منفی اور غیر ارادی نتائج کو بھی روکا جا سکتا ہے۔
اس رپورٹ کے تناظر میں گدھوں کی پناہ گاہ نے حکومتوں اور پالیسی سازوں سے گدھوں کی کھال کی عالمی تجارت پر فوری طور پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔