صنعتی اعتبار سے گوجرانوالہ پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ یہ شہر ایک ایسا کھلا چیمبر بن چکا ہے کہ جس کی فضا میں سانس لینا صحت کے لیے خطرے سے خالی نہیں رہا۔
ارمغان احسن گوجرانوالہ کے رہائشی ہیں اور پیشے کے لحاظ سے ایک تاجر ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دنیا آج کل سموگ کے بارے میں بات کر رہی ہے لیکن یہاں پر جو صورت حال ہے اسے ’سموگ پلس‘ کہا جا سکتا ہے۔
’پلاسٹک میٹریل جلانے کی وجہ سے کیمیائی اور زہریلی گیسز پیدا ہو رہی ہیں جن کی وجہ سے یہاں پر سانس لینا تک دشوار بنتا جا رہا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ گھر کی چھت ہو یا پارک میں لگے پودوں کے پتے، سب پہ دھوئیں کی کالک جمی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاس کوئی کوئلے کی کان ہے جس کے زہریلے مادے زندگیوں کو بھی نگل رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس معاملے پر جب انڈپینڈنٹ اردو نے ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات گوجرانوالہ چوہدری امتیاز سے مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ پلاسٹک جلانے والی 80 بھٹیاں مسمار کر چکی ہے اور ایک کروڑ سے زائد جرمانے کیے گئے ہیں تاکہ اس مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔
گوجرانوالہ کی رہائشی مومنہ بٹ، جو ایک گھریلو خاتون ہیں نے بتایا کہ ہم کالک کی وجہ سے کپڑے دھونے کے بعد باہر دھوپ میں ڈالنے سے بھی قاصر ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’چیزیں تو متاثر ہو ہی رہی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ انسان بھی اس آلودگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ بچوں میں کھانسی اور گلے کے انفیکشن عام ہیں اور بزرگ افراد دمے اور سانس کی بیماریاں کا شکار ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔