گوری کے والد کے لہجے میں دھمکی تھی اور لب و لہجہ ایسا تھا کہ شاہ رخ خان سہم کر رہ گئے۔ ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں جب کہ گوری کے والد رمیش چندرا کا چہرہ غصے سے سرخ تھا۔
شاہ رخ خان چند لمحوں تک ٹکٹی باندھے انہیں دیکھتے رہے۔ شاہ رخ خان کا گوری کے والد سے یہ پہلا ٹاکرا تھا۔
گوری اور شاہ رخ کے پیار کی کہانی قریبی دوستوں کے علم میں تھی اور پھر یہ بات دھیرے دھیرے گوری کے گھر والوں تک بھی پہنچ گئی۔ دونوں کم عمری سے ہی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور سماج کی ہر دیوار پار کرنے کی آگ دلوں میں لگی تھی مگر شاہ رخ خان کے ساتھ ایک تو یہ مسئلہ تھا کہ وہ ٹی وی فنکار تھے اور دوسرا مسلمان۔
اب یہی بات گوری کے گھر والوں کی اس رشتے کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ بن چکی تھی۔ اگر کوئی اس رشتے کا حامی تھا تو وہ گوری کے ماما تیجندر تھے۔
اب گوری اور تیجندر نے ہی شاہ رخ خان کو مشورہ دیا کہ انہیں اگر گوری کے والدین کا دل جیتنا ہے تو بہت جلد ماما کے گھر میں ایک تقریب ہونے جا رہی ہے اور اس میں شاہ رخ خان کو ضرور شرکت کرنی چاہیے۔ یہ وہ دور تھا جب شاہ رخ خان کا ٹی وی ڈراما ’فوجی‘ نشر ہو رہا تھا لیکن فلمی اداکاروں کے برعکس ٹی وی فنکاروں کو اتنی زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔
مقررہ دن شاہ رخ خان بن ٹھن کر گوری کے گھر پہنچے۔ چند ہی لمحے بعد وہ گوری کے والد رمیش چندرا کے سامنے کھڑے تھے۔ رمیش چندرا نے ان کا تعارف دریافت کیا تو شاہ رخ نے اپنی دانست میں چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جواب دیا کہ سر ان دنوں میرا ایک ڈراما ’فوجی‘ چل رہا ہے۔ اس میں میرا نام ابھیمنیو ہے۔
جہاندیدہ رمیش چندرا نے شاہ رخ کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے پھر کہا کہ میں تم سے تمہارا اصلی نام پوچھ رہا ہوں۔ شاہ رخ نے اب اپنا اصل نام بتا ہی دیا۔ چند سکینڈز کے لیے رمیش چندرا خاموش رہے۔
ان کے علم میں تھا کہ ان کی بیٹی گوری کا ایک مسلم لڑکے سے افیئر چل رہا ہے۔ وہ بھانپ گئے کہ شاہ رخ خان ہی وہ نوجوان ہے، جس پر انہوں نے انتہائی کرخت لہجے میں کہا کہ دیکھو لڑکے یہاں کچھ عزت دار لوگ ہیں۔ میں کوئی ہنگامہ نہیں کرنا چاہ رہا۔ تم چپ چاپ یہاں سے چلے جاؤ۔ گوری کے والد کے انداز میں ایسی چھپی دھمکی تھی کہ شاہ رخ سناٹے میں آگئے۔ ان کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور چاہتے تھے کہ اس کا جواب بھی دیں لیکن مصلحت کے تحت چپ رہے۔
انہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ گوری کے والد ان سے پہلی ملاقات میں ایسا ردعمل بھی دے سکتے ہیں۔ بہرحال وہ خاموشی سے اس محفل سے چلے گئے۔ اس واقعے کا تذکرہ شاہ رخ نے اپنی سوانح حیات ’کنگ آف بالی وڈ شاہ رخ خان‘ میں بھی کیا ہے۔
شاہ رخ نے اسی دن ٹھان لیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے اب ایسا کرنا ہے کہ گوری کے والد خود مجبور ہو کر اپنی بیٹی کی شادی ان سے کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ گوری کے گھر والوں کو یہ بھی تحفظات تھے کہ ایک اداکار اور وہ بھی ٹی وی کا، ان کی بیٹی کو خوش رکھ بھی پائے گا کہ نہیں۔ مگر شاہ رخ کہتے تھے کہ وہ گوری کے والدین کو اس بات کا یقین دلائیں گے کہ وہ ایک کامیاب اداکار ہیں۔ اب ان پر ایک نئی دھن سوار تھی۔ خود کو کامیاب بنانا تھا اور گوری کو اپنا شریک سفر بنا کر رہنا تھا۔
اسی عرصے میں شاہ رخ کے ڈراما سیریل ’سرکس‘ کے ہدایت کار عزیز مرزا نے جب پہلی فلم ’راجو بن گیا جینٹلمین‘ بنانے کی تیاری کی تو اس میں ہیرو کے لیے شاہ رخ خان کو ہی منتخب کیا۔ فلم ساز جی پی سپی کی اس فلم میں جوہی چاولہ شاہ رخ خان کی ہیروئن بن کر آ رہی تھیں۔
اب شاہ رخ خان کی خوش قسمتی ہی کہیے کہ انہیں اس عرصے میں فلم ’دیوانہ‘ میں بھی شامل کر لیا گیا۔ ہدایت کار راج کنور کی ’دیوانہ‘ میں اس وقت کے سپر سٹار رشی کپور اور دیویا بھارتی شامل تھے۔ فلم کے پوسٹرز جب مختلف مقامات پر لگے تو ’راجو بن گیا جینٹلمین‘ کے فلم ساز جی پی سپی تو خاصے غصے میں آگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ شاہ رخ خان کو ہیرو بنا کر پیش کر رہے ہیں اور وہ اس فلم ’دیوانہ‘ میں ایک معمولی سا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ پوسٹرز میں وہ کسی کونے کھدرے میں نظر آرہے ہیں۔ اس طرح ان کی فلم ’راجو بن گیا جینٹلمین‘ بری طرح ناکام ہو سکتی ہے، جس پر شاہ رخ خان کا کہنا تھا کہ کیا ہوا فلم کے پوسٹرز میں وہ کسی کونے میں ہیں لیکن یاد رکھیں کہ بہت جلد ملک کے کونے کونے میں ان کے نام کی گونج ہونے والی ہے۔
شاہ رخ خان اداکاری کرنے کے ساتھ ساتھ محبت کو پانے کی ایک جنگ گوری کے گھر والوں سے لڑ رہے تھے۔ گوری کی والدہ نے بیٹی پر دباؤ ڈالنے کے لیے نیند کی گولیاں کھا کر خودکشی کی ناکام کوشش کی لیکن گوری بھی ضد پر اڑی رہیں۔
شاہ رخ خان اور گوری نے دھمکی دے دی کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے شادی تو وہ ایک دوسرے سے ہی کریں گے۔ اس عرصے میں انہوں نے خود کو کورٹ میرج کے لیے رجسٹرڈ بھی کروا لیا تھا۔ گوری کے والدین نے بھی ہتھیار ڈال دیے اور پھر 25 اکتوبر 1991 کو واقعی دونوں کی شادی ہو گئی۔
اس وقت تک شاہ رخ خان کی کوئی فلم سینیما گھروں کی زینت نہیں بنی تھی۔ شادی کے بعد ایک طویل عرصے تک وہ عزیز مرزا کے فلیٹ میں گوری کے ساتھ رہے جب کہ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اپنی شادی پر انہوں نے ’راجو بن گیا جینٹلمین‘ میں استعمال ہونے والے کوٹ پتلون کا ہی استعمال کیا۔ گوری کے والدین نے بھی بحالت مجبوری اس شادی کو قبول کیا تھا، حالانکہ وہ کسی صورت شاہ رخ خان کو اپنا داماد ماننے کو تیار نہیں تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شاہ رخ خان کی ’دیوانہ‘ اور ’راجو بن گیا جینٹلمین‘ ساتھ ساتھ بن رہی تھیں۔ جو فلم ’دیوانہ‘ شاہ رخ خان نے بعد میں سائن کی تھی وہ پہلے نمائش کے لیے پیش کردی گئی۔ 25 جون 1992 کو جب ’دیوانہ‘ کی نمائش ہوئی تو شاہ رخ خان نے گوری کے والدین اور ماما سے بھی خصوصی طور پر یہ فلم دیکھنے کی گزارش کی۔
بمبئی کے سینیما گھر میں جب گوری کا پورا خاندان پہنچا تو انٹرول تک انہیں اپنے داماد کی ایک جھلک بھی نظر نہ آئی۔ گوری کے والدین تو ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے کہ یہ کیا مذاق ہے۔ آدھی فلم گزر گئی لیکن داماد کا ایک منظر بھی نہیں آیا، لیکن پھر انٹرول کے بعد شاہ رخ خان کی انٹری ہوتی ہے۔
موٹرسائیکل پر یار دوستوں کے ساتھ جب وہ مشہور گیت ’کوئی نہ کوئی چاہیے پیار کرنے والا‘ گاتے ہوئے نمودار ہوئے تو پورے سینیما گھر میں جیسے بجلی کی لہر دوڑ گئی۔ گوری کے والد رمیش نے دیکھا کہ ہر کوئی ناچ رہا تھا۔ تالیاں اور سیٹیاں ایسی بج رہی تھیں کہ کان پڑی آواز نہ سنائی دے۔ پردہ سیمیں پر نوٹ نچھاور ہو رہے تھے اور فلم بینوں کا ایسا جوش و خروش تھا کہ گوری کے گھر والے دم بخود رہ گئے۔
فلم ’دیوانہ‘ میں سائیڈ ہیرو ہونے کے باوجود شاہ رخ خان کی اداکاری کا ہر جانب چرچا تھا۔ وہ سپر سٹار بن رہے تھے اور یہی سب کچھ دیکھ کر گوری کے والدین نے دل سے شاہ رخ خان کو اپنا داماد تسلیم کر ہی لیا۔ فلم ’دیوانہ‘ کے بعد شاہ رخ خان کی ’راجو بن گیا جینٹلمین‘ بھی کھڑکی توڑ کامیابی سے دوچار ہوئی۔ پھر تو شاہ رخ خان کے دور کا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہے۔ اب مزے کی بات یہ ہے کہ جس فلم نے گوری کے والدین کی سوچ کو بدل کر رکھ دیا، اسی فلم ’دیوانہ‘ کو آج تک شاہ رخ خان نے نہیں دیکھا۔
اس بارے میں ان کا یہ کہنا ہے کہ اسی فلم کی عکس بندی کے دوران وہ ہر وقت سیٹ پر گوری کو پانے کا سوچتے رہتے اور مختلف منصوبے بناتے، اسی لیے انہیں عکس بندی میں لطف نہیں آیا۔ اب یہ ان کی عجیب عادت بن گئی ہے کہ جس فلم کی عکس بندی میں انہیں مزا نہیں آتا وہ اسے نہیں دیکھتے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔