آٹھ فروری کے انتخابات میں صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت سے کامیاب ہونے والے نو منتخب اراکین اسمبلی کے گروہ کے پاس حکومت بنانے کے لیے صوبائی اسمبلی میں مطلوبہ اراکین کی تعداد پوری ہے تاہم ان کے راستے میں بعض قانونی پیچیدگیاں بھی موجود ہیں۔
الیکشن ایکٹ 2017 کے شق 92 چھ کے مطابق قومی یا صوبائی اسمبلی کے لیے جیتنے والے آزاد نو منتخب اراکین کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے حتمی نیتجہ جاری ہونے کے بعد تین دن میں کسی سیاسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا ضروری ہے۔
یہی بات آئین پاکستان کے آرٹیکل 51 اور آرٹیکل 106 میں بھی درج ہے کہ آزاد حیثیت سے جیتنے والے نو منتخب اراکین کسی رجسٹرڈ سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔
آزاد اراکین کی کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کی صورت میں اس پارٹی کو اسمبلی کی مخصوص نشستیں میں الاٹ ہو جاتی ہیں اور پی ٹی آئی بھی مجلس وحدت المسلمین سے اتحاد کر کے یہی فائدہ اٹھانا چاہ رہی ہے۔
ایسا نہ کرنے کی صورت میں آزاد حیثیت میں کامیاب ہونےو الے امیدوار کو آزاد ہی تصور کیا جائے گا اور ان پر سیاسی جماعت کے منتخب اراکین کی لیے موجود قوانین لاگو نہیں ہوں گے۔
سیاسی جماعت سے وابستہ رکن اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد کسی دوسرے جماعت میں میں شمولیت اختیار نہیں کر سکتے اور ایسا کرنے کے لیے انہیں اسمبلی میں اپنی نشست سے دستبردار ہونا پڑے گا۔
پاکستان تحریک انصاف سے بلے کا نشان چھن جانے کے بعد ان کے تمام امیدواروں نے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا اور منتخب ہونے کے بعد بھی اسمبلیوں میں فی الحال ان کی حیثیت آزاد ہی ہے۔
پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں مجلس وحدت المسلمین اور خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
تاہم جماعت اسلامی نے صرف خیبر پختونخوا اسمبلی میں اتحاد کی صورت میں پی ٹی آئی سے معذرت کر لی ہے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں جماعت اسلامی کے اتحاد سے انکار کے بعد پی ٹی آئی کے پاس حکومت بنانے کے لیے کون سی قانونی آپشنز موجود ہو سکتی ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں پریکٹس کرنے والے آئینی ماہر عمر اعجاز گیلانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کے لیے ایک راستہ تو یہی ہے کہ ان کے آزاد اراکین کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرکے وفاق یا صوبے میں حکومت بنائیں۔
تاہم ان کے خیال میں پی ٹی آئی کی حمایت سے کامیاب ہونے والے آزاد امیدوار ان کی آزاد حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے بھی حکومت سازی کر سکتے اور اپنا وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ منتخب کر سکتے ہیں۔
اعجاز گیلانی کا کہنا تھا کہ آزاد اراکین اسمبلی میں گروپ بندی کے رجحانات زیادہ پائے جاتے ہیں اور وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کے امکانات ہر وقت موجود ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ، ’آزاد اراکین کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت کسی سیاسی جماعت کا رکن ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ وہ سیاسی جماعت کے ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمر گیلانی کے خیال میں اس وقت اسمبلیوں میں ایک منفرد صورت حال کا سامنا ہے کیونکہ آزاد اراکین کی حکومت اور ان کا منتخب کردہ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ دراصل عوامی وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم ہی ہو گا۔
عمر گیلانی کے مطابق پارلیمانی نظام میں کسی اسمبلی کا منتخب وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کسی سیاسی جماعت یا ایوان کا نہیں بلکہ عوامی ہونا چاہیے اور اگر وہ عوامی امنگوں پر پورا نہیں اترتا تو اراکین ان کو عدم اعتماد کے ذریعے عہدے سے ہٹا سکتے ہیں۔
عمر گیلانی کے مطابق پہلے یہی ہوتا تھا کہ ایوان میں صدر کسی وزیر اعظم منتخب کرنے کے لیے ایوان سے ووٹ مانگتے تھے اور زیادہ ووٹ لینے والا منتخب ہوتا تھا لیکن اب قانون میں تبدیلی کے بعد دو وزیر اعظم کے امیدواران کھڑے کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا، ‘دو میں سے ایک زیادہ ووٹ لینے کے بعد وزیر اعظم یا وزیر اعلی بنا جاتا کے۔ دونوں کے اگر ووٹ برابر آتے ہے، تو دوسری بار ووٹنگ کی جاتی ہے۔’
عمر گیلانی کا کہنا تھا کہ آزاد اراکین اسمبلی حکومت سازی کے بعد بھی کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔
ان کے مطابق: ’کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے یا آزاد حیثیت میں حکومت بنانے کے علاوہ قانون میں آزاد امیدواروں کے لیے تیسرا کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔‘