حکام اور سرکاری میڈیا کے مطابق اسرائیل کی جنگی کابینہ نے سیز فائر اور غزہ سے قیدیوں کی واپسی کے مقصد سے مذاکرات جاری رکھنے کے لیے ہفتے کو مذاکرات کاروں کو قطر بھیجنے کی منظوری دے دی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق مذاکرات کا آغاز پیرس میں ہوا جہاں اسرائیل کی غیر ملکی انٹیلی جنس سروس موساد کے سربراہ اور شن بیٹ سکیورٹی سروس میں ان کے ہم منصب نے امریکہ، مصر اور قطر کے ثالثوں سے ملاقات کی۔
اسرائیل کے قومی سلامتی کے مشیر زاچی ہینگبی نے ہفتے کی شام ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا: ’وفد پیرس سے واپس آ گیا ہے اور ممکنہ طور پر معاہدے کی جانب بڑھنے کی گنجائش موجود ہے۔‘
انہوں نے اجلاس سے کچھ دیر قبل مزید کہا کہ مذاکرات کاروں نے کابینہ سے بات کرنے کے لیے کہا تھا تاکہ ’ہمیں پیرس ملاقات سے متعلق آگاہ کر سکیں۔‘
بعد ازاں اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے خبر دی کہ یہ میٹنگ ختم ہوگئی ہے اور کابینہ نے آنے والے دنوں میں ایک وفد قطر بھیجنے پر اتفاق کیا ہے تاکہ ہفتوں پر محیط سیزفائر پر مذاکرات جاری رکھے جائیں، جس کے دوران اسرائیل میں قید فلسطینی قیدیوں کے بدلے غزہ سے اسرائیلی قیدی رہا ہوں گے۔
اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کی حکومت پر قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ کرنے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہفتے کو تل ابیب میں ہزاروں افراد اس مقام پر جمع ہوئے جسے ’قیدیوں کا سکوائر‘ کہا جاتا ہے اور فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اورنا تال جن کے قریبی دوست ساچی ایدان کو كيبوتس ناحال عوز سے غزہ لے جایا گیا تھا، نے کہا، ’ہم ان (قیدیوں) کے بارے میں ہر وقت سوچتے ہیں اور انہیں جلد از جلد زندہ واپس لانا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ’جب تک وہ واپس نہیں آ جاتے، ہم بار بار احتجاج کریں گے۔‘
ہفتے کو اپنے انٹرویو میں ہینگبی نے کہا کہ اسرائیل سات اکتوبر کے حملوں میں پکڑے گئے تمام قیدیوں کی رہائی چاہتا ہے، جس کا آغاز خواتین سے ہوگا، لیکن انہوں نے مزید کہا: ’اس قسم کے معاہدے کا مطلب جنگ کا خاتمہ نہیں ہے۔‘
انہوں نے یہ بھی اشارہ دیا کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے لیے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان کسی بھی معاہدے کو قبول نہیں کرے گا۔
نتن یاہو نے ایک بیان میں کہا کہ ہفتے کو کابینہ کے اجلاس میں ’مذاکرات میں اگلے اقدامات‘ پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
انہوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ فوجی رفح میں داخل ہوں گے، باوجود اس کے کہ بمباری سے بچنے کے لیے فرار ہو کر وہاں پہنچنے والے لاکھوں شہریوں کے متعلق بہت زیادہ تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
رفح میں اے ایف پی کے ایک رپورٹر نے بتایا کہ ہفتے کی شام کو شہر پر کم از کم چھ فضائی حملے کیے گئے۔
غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کے بعد سے شروع ہونے والی اسرائیل کی فضائی، زمینی اور سمندری جارحیت کے نتیجے میں کم از کم 29,606 افراد جان سے جا چکے ہیں۔
اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حماس نے غزہ کی پٹی کی سرحد سے متصل اسرائیلی دیہی آبادیوں اور فوجی چوکیوں پر حملے کیے، جس کے نتیجے میں کم از کم 1160 افراد مارے گئے تھے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ تقریباً 250 افراد کو قیدی بنایا گیا ہے جن میں سے 130 اب بھی غزہ میں ہیں جبکہ 30 کے متعلق اسرائیل کا خیال ہے کہ وہ مارے جاچکے ہیں۔
نومبر میں ایک ہفتے کے سیزفائر میں 100 سے زائد قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا، جن میں 80 اسرائیلی بھی شامل تھے۔ انہیں اسرائیل کی جیلوں میں قید تقریباً 240 فلسطینیوں کے بدلے رہا کیا گیا تھا۔
نتن یاہو نے غزہ میں سیزفائر کے حماس کے مطالبے کو ’عجیب‘ قرار دیا اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ جب تک اس گروپ پر ’مکمل فتح‘ حاصل نہیں ہو جاتی تب تک وہ جارحیت جاری رکھیں گے۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج کے سربراہ ہرزی حلوی نے غزہ کی پٹی کا دورہ کیا اور یہ بھی کہا کہ قیدیوں کو واپس لانے کا سب سے مؤثر طریقہ فوجی کارروائی ہے۔
انہوں نے فوجیوں کو بتایا کہ لڑائی کا ’فائدہ‘ ہوا۔ ’ہمیں اسے جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔۔۔ تاکہ قیدیوں کی رہائی کے لیے اس کا استعمال کیا جائے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔