صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں اتوار کو ’راوی بچاؤ تحریک‘ نے دوسری راوی یاترا واک کا انعقاد کیا جس کا مقصد دریائے راوی سمیت دیگر دریاؤں اور پانی کا تحفظ ہے۔
اس تحریک کے بانی لاہور سے تعلق رکھنے والے ابوزر مادھو ہیں جنہوں نے گذشتہ سال پہلی بار ’راوی بچاؤ تحریک‘ کے عنوان سے واک کا آغاز کیا تھا۔
اتوار کو نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے سامنے استنبول چوک میں ابوزر مادھو اور ان کے ساتھ سول سوسائٹی کے کئی افراد اکٹھے ہوئے۔
ابوزر مادھو جو کہ ایک پرفارمنگ آرٹسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک استاد بھی ہیں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس تحریک کو کوئی فنڈنگ نہیں مل رہی نہ ہی یہ کسی این جی او نے شروع کی ہے بلکہ اس مارچ میں شامل ہونے والوں کا تعلق پاکستان کے مختلف اضلاع سے ہے۔
’ان میں سے کوئی طالب علم ہیں، ڈاکٹر ہیں، وکیل، اساتذہ اور آرٹسٹ بھی ہیں اور وہ یہاں اپنے اپنے دریاؤں کی بات کرنے کے لیے آئے ہیں۔‘
ابوزر مادھو نے یہ بھی بتایا کہ ’اس برس ان کی اس تحریک سے متاثر ہو کر سرحد پار چڑھتے پنجاب (انڈین پنجاب) سے بھی کچھ دوست ان کے ساتھ اس تحریک کا حصہ بنے ہیں۔‘
ابوزر مادھو کے مطابق ’اتوار کو ہی انڈیا میں بھی ستلج اور بیاس پر عوام اکٹھی ہوئی ہے اور وہاں سے بھی دریاؤں کو بچانے کی مہم کا آغاز ہو گیا ہے جسے ’ربیاست‘ یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا نام دیا گیا ہے۔‘
ان کے مطابق ’پنجاب میں سرحد پار یہ تحریک شروع ہوئی ہے اور یہ ایک مشترکہ پیغام ہے دونوں اطراف کے لوگوں کی طرف سے کہ ہمارے دریا اپنے جیون کا حق مانگ رہے ہیں ہمارے دریا سوکھ رہے ہیں اور ان کی مخلوق تکلیف میں ہے ان کے ساتھ رہنے والے تکلیف میں ہیں اس لیے دریاؤں کو آزاد کیا جائے۔‘
اتوار کو اس راوی یاترا کا آغاز لاہور کے استنبول چوک سے ہوا اور نئے راوی پل پر اس کا اختتام ہوا۔ اس واک کے لیے آئے افراد نے مختلف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر دریاؤں کو بچانے کے حوالے سے نعرے درج تھے۔
اس واک میں شریک افراد اپنے ساتھ گلاب کے پھول، مٹی کے مٹکے اور پیالے اور دریا کنارے لگانے کے لیے نئے پودے بھی لائے تھے۔ جبکہ چند طلبہ سکیٹنگ بورڈز پر بھی اس واک کا حصہ بنے۔
واک میں شریک افراد نے دریا پر پہنچ کر وہاں دریا کے گیت گائے اور وہاں بسنے والے خانہ بدوشوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا۔
دریا پر ڈھول کی تھاپ پر کتھک رقص بھی کیا گیا اور پھر مٹی کے پیالوں، مٹکوں اور چھابیوں میں رکھے گئے پھول دریا کے بچے کھچے، گندے اور بدبو دار پانی میں بہائے گئے۔
اس موقعے پر ابوزر مادھو کا کہنا تھا کہ ’پھول علامتی طور پر دریا میں بہائے جاتے ہیں تاکہ یہ پیغام دیا جا سکے کہ دریا کو صاف رکھنا ہے۔‘
ابوزر مادھو نے دریا پر بات کرتے ہوئے اس تحریک کے تین مطالبات بھی پیش کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک تو راوی میں گندا پانی شامل کرنا بند کیا جائے کیونکہ یہ پانی فصلوں تک جاتا ہے جو صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔ دریا میں پانی کو صاف کر کے ڈالا جائے۔ دوسرا یہ کہ دریا کی زمین پر بننے والی ہاؤسنگ سکیموں کو فوری طور پر بند کیا جائے۔ تیسرا یہ کہ انڈس واٹر ٹریٹی پر نظرثانی کی جائے اور نئی ٹریٹی عوام سے پوچھ کر بنائی جائے۔‘
اس واک میں شامل ایک معروف نجی سکول کی پرنسپل مانو کا کہنا تھا کہ ’اس واک کا براہ راست یا فوری فائدہ تو شاید نہیں ہو گا نہ ہوتا ہے کیونکہ یہ ایسا کام ہے جس میں ریاست کو کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے سٹیک ہولڈرز کے پاس کوئی طاقت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس کے سٹیک ہولڈرز میں وہ لوگ شامل ہیں جو اس کے کنارے رہتے ہیں یا وہ جن کے کھیتوں کو یہاں سے جانے والا پانی لگتا ہے۔ ان میں سے بیشتر کو تو کوئی آگاہی ہی نہیں ہے۔ یہ آگاہی دینے والی یاترا ہے اس کو شروع کریں گے تو بات پھیلے گی۔‘
واک پر آنے والی ڈاکٹر شمسہ صوفیہ کا کہنا تھا کہ ’ہم لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا چاہ رہے ہیں کہ اس وقت راوی میں گٹروں کا پانی، آلودگی، انڈسٹریز کی آلودگی کی روک تھام کی جائے۔
’یہی پانی زراعت کے لیے بھی استعمال ہو رہا ہے جس کی وجہ سے صحت کے مسائل بہت زیادہ بڑھ رہے ہیں۔‘
اس واک میں شریک بہاولپور سے آنے والے حیدر قریشی کا کہنا تھا کہ ’دریائی آلودگی اور کلائمیٹ چینج کی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
’ہمارے دریاؤں کے بارے میں لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ پاکستان کا اصل مسئلہ ہے اور اس پر ایک بحث کا آغاز ہونا چاہیے اور بااثر اور مقتدر حلقے ان چیزوں پر بات کریں۔ ان چیزوں کے بارے میں سوچیں کہ کس طرح ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو بچانا ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔