پاکستان میں ہونے والے ہر انتخاب میں کئی امیدوار ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخابی دنگل کا حصہ بنتے ہیں، خصوصاً بڑی سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنما مخلتف شہروں سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر قسمت آزماتے ہیں۔
الیکشن کے بعد قانونی طور پر ایک سے زیادہ سیٹوں سے نو منتخب رکن کو ایک نشست رکھنا ہوتی ہے جب کہ خالی ہونے والی سیٹوں پر الیکشن کمیشن 60 روز میں ضمنی انتخابات کرانے کا پابند ہے۔
حالیہ انتخابات میں بھی یہ مظہر دیکھنے میں آیا ہے۔ سب سے زیادہ نشستوں پر پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور وزرات عظمیٰ کے امیدوار شہباز شریف نے قومی و صوبائی اسمبلی کی چار نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
اسی طرح چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں جبکہ تیسری قومی اسمبلی کی لاہور سے سیٹ پر انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
سب سے زیادہ مسلم لیگ ن کی خالی کردہ آٹھ نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کی تین، پی ٹی آئی کی دو اور ق لیگ، استحکام پاکستان پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی ایک ایک نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوں گے۔
ملک بھر میں 12 سے زیادہ نشستیں ایسی ہیں جہاں ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ لہذا اب ان کے ایک سیٹ رکھ کر باقی خالی کرنے کے بعد سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر یہاں سے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند امیدواروں نے رابطے شروع کر دیے ہیں۔
سب سے زیادہ قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں لاہور میں خالی ہوئیں جن پر ضمنی الیکشن ہوں گے۔
ایک سے زیادہ نشستوں پر کامیابی کے بعد سیاسی جماعتوں کی روایت رہی کہ اپنے ہارنے والے اہم رہنماؤں یا ان حلقوں میں پہلے سے موجود مضبوط امیدواروں کو میدان میں اتارا جاتا ہے۔
زیادہ نشستوں پر الیکشن اہم رہنماوں کے لڑنے کا مقصد یا تو پارٹی پوزیشن بہتر کرنا یا ہر صورت ایوان تک پہنچنا ہوتا ہے۔
کونسی نشستوں پر ضمنی انتخاب ہو گا؟
الیکشن کمیشن ریکارڈ کے مطابق لاہور سے خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی کی چار نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے۔ اتحادی جماعتوں کی جانب سے وزارت عظمی کے امیدوار شہباز شریف نے لاہور کے حلقہ این اے 123، این اے 132 قصور لاہور کے صوبائی حلقوں پی پی 158اور پی پی 164 سے کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے قصور سے قومی اسمبلی کی این اے 132 اور صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستیں چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
استحکام پاکستان پارٹی کے صدر علیم خان نے کامیابی کے بعد این اے 117کی نشست پاس رکھی جب کہ پی پی 149 کی نشست چھوڑ دی ہے۔
حمزہ شہباز نے این اے 118 سے ایم این اے کا حلف اٹھانے جبکہ پی پی 147 کی نشست چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
لاہور کے صوبائی حلقہ پی پی 159 سے کامیاب ہو کر وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہونے والی مریم نواز نے این اے 119 کی سیٹ خالی کر دی ہے۔
مسلم لیگ ن کے سردار غلام عباس این اے 53 سے ایم این اے بن گئے ہیں جب کہ پی پی 22 سے منتخب ہو کر نشست خالی چھوڑی۔
مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال قومی اسمبلی کے حلقہ 76 اور پی پی 54 سے منتخب ہوئے لیکن انہوں نے پنجاب اسمبلی کی نشست سے حلف نہیں اٹھایا اور یوں پی پی 54 کی سیٹ چھوڑ دی۔
ن لیگی رہنما رانا تنویر نے بھی شیخوپورہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر حلف اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ وہ بھی صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ چکے ہیں۔
ڈیرہ غازی خان سے ن لیگی رہنما اویس خان لغاری این اے 186 سے رکن قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے۔ انہوں نے بھی رکن پنجاب اسمبلی کا حلف نہیں اٹھایا۔ صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے تین قومی اسمبلی کی نشستوں سے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ وہ لاہور کے این اے 127 میں ہار گئے جبکہ سندھ سے دو قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب ہوئے ان میں سے ایک نشست چھوڑی ہے۔ سندھ سے ہی پیپلز پارٹی کی دو نشستوں سے منتخب رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عذرا پلیجو نے ایک سیٹ چھوڑ دی ہے۔
ق لیگ کے چودھری سالک حسین نے گجرات سے قومی اسمبلی کی نشست پاس رکھی اور صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑی ہے۔
پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد منتخب ہونے والے ریاض فتیانہ نے بھی این اے 107 سے منتخب ہو کر رکن قومی اسمبلی کا حلف اٹھانے کا فیصلہ کیا جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی۔
پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد منتخب ہونے والے علی امین گنڈا پور نے ڈیرہ اسماعیل خان سے قومی اسمبلی کی نشست خالی کر دی ہے۔ صوبائی نشست پر وہ خیبر پختونخواہ کی وزارت اعلی کے امیدوار ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیاب ہونے والے بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر مینگل نے بھی بلوچستان اسمبلی کی نشست چھوڑ دی ہے۔
قومی اسمبلی کے نومنتخب اراکین کی حلف برداری کے بعد الیکشن کمیشن خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی الیکشن کے شیڈول کا اعلان کرے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خالی نشستوں پر امیدوار متحرک
مسلم لیگ ن کے رہنما اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’مسلم لیگ ن کے سب زیادہ امیدوار ایک سے زائد نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں۔ جن میں سے بیشتر نے صوبائی جبکہ مریم نواز اور شہباز شریف نے قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست خالی کردی ہے۔‘
میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’قومی اسمبلی کی نشستیں خالی ہونے سے ہمارے قومی و صوبائی اسمبلی میں ووٹ ضرور کم ہوئے لیکن پھر بھی حکومت سازی میں روکاوٹ نہیں آئے گی۔ لہذا جو نشستیں خالی ہوئی ہیں ان پر ضمنی الیکشن ہو گا اور ہم اپنے امیدوار سامنے لائیں گے۔‘
مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور رانا ثنا اللہ کو قومی اسمبلی کی نشستوں پر شکست ہوئی ہے۔ لہذا امکان ہے کہ انہیں پارٹی خالی نشستوں پر الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ جاری کرے۔
تاہم مریم نواز کی خالی کی گئی این اے 119 کی نشست پر علی پرویز ملک بھی ٹکٹ کے لیے متحرک ہیں۔
شہباز شریف کی قصور سے خالی نشست این اے 132 پر ملک رشید احمد خان الیکشن میں حصہ لینے کے خواہاں ہیں کیونکہ وہ پہلے بھی اس نشست سے رکن اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔
اسی طرح دیگر نشستوں پر بھی حصہ لینے کے خواہش مند امیدوار اپنی اپنی پارٹیوں سے ان سیٹوں پر الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹوں کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔