دراز کا پاکستان میں مزید برطرفیوں کا اعلان

کمپنی کے قائم مقام چیف ایگزیکٹو آفیسر جیمز ڈونگ نے منگل کو ایک داخلی میمو جاری کیا، جس میں ملازمین کو بتایا گیا ہے کہ ملازمتوں کا حجم کم کرنے کا فیصلہ ’آخری آپشن کے طور پر لیا گیا ہے۔‘

علی بابا کی ملکیت والے ای کامرس پلیٹ فارم دراز گروپ کا ایک سائن بورڈ کراچی میں 27 فروری 2024 کو ایک عمارت پر نظر آ رہا ہے (روئٹرز)

پاکستان کی بڑی آن لائن کمپنی دراز گروپ کی جانب سے گذشتہ سال اپنی 11 فیصد افرادی قوت کم کرنے کے فیصلے کے بعد اب مزید برطرفیوں کا اعلان کیا گیا ہے۔

دراز، جو اب چین کی علی بابا کمپنی کی ملکیت ہے، کی بنیاد 2012 میں پاکستان میں ایک آن لائن فیشن ریٹیلر کے طور پر رکھی گئی تھی، جو کچھ عرصے بعد ہی اہم ای کامرس پلیٹ فارم بن گیا۔

2018 میں چینی کمپنی علی بابا کی جانب سے اسے خریدنے سے پہلے دراز پاکستان میں سب سے مقبول آن لائن شاپنگ ایپ کے طور ابھری۔

کمپنی کے قائم مقام چیف ایگزیکٹو آفیسر جیمز ڈونگ نے منگل کو ایک داخلی میمو جاری کیا، جس میں ملازمین کو بتایا گیا ہے کہ ملازمتوں کا حجم کم کرنے کا فیصلہ ’آخری آپشن کے طور پر لیا گیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’گذشتہ چند سالوں میں ہم نے اخراجات کو منظم کرنے اور آپریشنل کارکردگی کو کافی حد تک بہتر بنانے کے لیے کام کیا ہے تاہم مختلف حل تلاش کرنے کی ہماری کوششوں کے باوجود لاگت کا ڈھانچہ مالی اہداف سے متضادم ہوتا جا رہا ہے۔ مارکیٹ کے بے مثال چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے ہمیں اپنی کمپنی کی طویل مدتی پائیداری اور مسلسل ترقی کو یقینی بنانے کے لیے فوری کارروائی کرنے کی ضرورت پڑی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جیمز ڈونگ نے اعلان کیا کہ کمپنی نے اپنی اہم سروسز کو متنوع بنا کر اور اپنی مصنوعات کی کیٹیگریز کو بڑھا کر صارفین کے تجربے کو فعال طور پر بہتر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم جنوبی ایشیا میں کام کرنے کے حوالے سے پرجوش ہیں اور اس ڈیجیٹل انقلاب میں اپنا تعاون جاری رکھنے کے لیے اپنی علاقائی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔‘

دراز نہ صرف ای کامرس کی خدمات فراہم کرتا ہے بلکہ لاجسٹکل شعبے میں بھی اس کا بڑا حصہ ہے۔ کمپنی کی انتظامیہ کے مطابق اس کے پاس تین کروڑ سے زیادہ خریدار، دو لاکھ فعال سیلرز اور ایک لاکھ سے زیادہ برانڈز ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت