چند روز قبل انڈیا سے ڈی پورٹ کی گئی انڈین نژاد برطانوی مصنفہ نتاشہ کول نے خود پر لگائے گئے ان الزامات کی تردید کردی ہے کہ ان کی شادی کسی پاکستانی سے ہوئی ہے یا یہ کہ وہ چین کا مہرہ ہیں۔
نتاشہ نے ایکس پر لکھا: ’پھر سب جھوٹ، میں نے کسی پاکستانی سے شادی نہیں کی، میں مسلمان نہیں، چین کا پیادہ نہیں، مغرب کی کٹھ پتلی نہیں، کمیونسٹ نہیں، جہادی نہیں، پاکستان کی ہمدرد بھی نہیں ہوں، نہ ہی میں دہشت گردی کی حامی ہوں اور نہ ہی انڈیا کی مخالف، میں کسی گینگ کا حصہ بھی نہیں ہوں۔ میں وہ ہوں جس سے حکام خوف محسوس کرتے ہیں ۔۔۔ ایک غور و فکر کرنے والی خاتون۔‘
‘I am not married to a Pakistani, not a Muslim convert': Nitasha Kaul trashes claims after UK writer was deported https://t.co/5lu6qJcIzF
— Professor Nitasha Kaul, PhD (@NitashaKaul) February 27, 2024
چند روز قبل انڈین نژاد برطانوی لکھاری نتاشہ کول نے کہا تھا کہ انہیں ’جمہوری اور آئینی اقدار‘ کے بارے میں ان کی رائے کی وجہ سے انڈیا میں داخل نہیں ہونے دیا گیا اور ایئرپورٹ سے ہی ڈی پورٹ کر دیا گیا۔
لندن کی یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر کی پروفیسر نتاشہ کول نے ایکس پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ انہیں ’دہلی سے ملنے والے احکامات‘ کے باعث ایئر پورٹ پر ہی روک لیا گیا۔
نتاشہ نے بتایا تھا کہ وہ جنوبی انڈیا میں واقع بنگلور ایئرپورٹ پہنچی تھیں، جہاں انہیں دو روزہ آئین اور قومی اتحاد کنونشن میں بطور سپیکر شرکت کے لیے بلایا گیا تھا، لیکن بنگلور میں طیارے کے اترنے کے بعد انہیں امیگریشن کے مرحلے پر ویزہ ہونے کے باوجود روک لیا گیا۔
IMPORTANT: Denied entry to #India for speaking on democratic & constitutional values. I was invited to a conference as esteemed delegate by Govt of #Karnataka (Congress-ruled state) but Centre refused me entry. All my documents were valid & current (UK passport & OCI). THREAD 1/n pic.twitter.com/uv7lmWhs4k
— Professor Nitasha Kaul, PhD (@NitashaKaul) February 25, 2024
انہوں نے لکھا کہ مجھے ایسا رویہ روا رکھنے کی کوئی توجیہہ نہیں دی گئی سوائے اس کے کہ ’ہم کچھ نہیں کر سکتے، دہلی سے حکم آیا ہے۔‘
بقول نتاشہ: ’مجھے دہلی کی طرف سے کوئی پیشگی نوٹس یا اطلاع نہیں دی گئی تھی کہ مجھے انڈیا میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
برطانوی پروفیسر کے مطابق انہیں نہ صرف امیگریشن پر کئی گھنٹے گزارنے پڑے جس کی انہیں وجہ بھی نہیں بتائی گئی بلکہ 24 گھنٹوں کے لیے انہیں سی سی ٹی وی آبزرویشن میں بھی رکھا گیا، جہاں انہیں بنیادی ضروریات جیسا کہ تکیہ اور کمبل وغیرہ کے لیے بھی درجنوں کالز کرنی پڑیں اور اس کے باوجود یہ اشیا انہیں فراہم نہیں کی گئیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اہلکاروں نے ’غیر رسمی طور پر برسوں پہلے میری ایک انتہائی دائیں بازو کی ہندو قوم پرست نیم فوجی تنظیم آر ایس ایس پر تنقید کا حوالہ دیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2019 میں، نتاشہ کول نے امریکہ کی ہاؤس کمیٹی برائے خارجہ امور کے سامنے ایک اہم گواہ کے طور پر کام کیا، جس نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی گواہی دی تھی۔
24 گھنٹے کے بعد نتاشہ کول کو لندن ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے اپنا موازنہ ’تبتی جلاوطنوں اور یوکرین کے جلاوطنوں اور تاریخ کی ایسی شخصیات سے کیا جنہیں وحشیانہ طاقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔‘
انہوں نے مزید لکھا: ’تمام درست دستاویزات کے باوجود انڈیا کے ماہرینِ تعلیم، صحافیوں، کارکنوں اور مصنفین پر پابندی لگانا افسوس ناک ہے۔‘
اس معاملے پر اپوزیشن کانگریس پارٹی کے سیاست دان اور کرناٹک اسمبلی کے قانون ساز رکن اضوان ارشد نے نریندر مودی کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے پروفیسر نتاشہ کول کی ملک بدری کو ریاست کرناٹک کی ’بدقسمتی‘ اور ’توہین‘ قرار دیا۔
تاہم حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کرناٹک ونگ نے ایکس پر ’انڈیا مخالف عنصر‘ کو پکڑنے کے لیے امیگریشن میں سکیورٹی ایجنسیوں کا شکریہ ادا کیا اور نتاشہ کول کو ’پاکستانی ہمدرد‘ قرار دیا تھا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔