انڈپینڈنٹ اردو کے زیر اہتمام پاکستان کی جامعات میں صحافت کے طلبہ کے لیے شروع کیے گئے پروگرام ’انڈی اِن کیمپس‘ کے تحت لاہور کے کنیئرڈ کالج برائے خواتین میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔
انڈپینڈںٹ اردو کے ایڈیٹر ان چیف بکر عطیانی نے صحافت میں درپیش چیلنجز کے حوالے سے میڈیا سٹڈیز کی طالبات سے بات چیت کی۔
اس موقع پر کنیئرڈ کالج کے شعبہ ہیومینٹیز کی ڈین پروفیسر ڈاکٹر ماشا اسد خان اور میڈیا سٹڈیز کی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر کرن کرامت بھی موجود تھیں۔
بکر عطیانی نے طالب علموں کو بتایا کہ آج کل کے دور میں ایک مصدقہ خبر کے لیے صحافیوں کو کن کن چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے چیزیں آسان تھیں لیکن اب خبروں کا سلسلہ 24 گھنٹے تک جاری رہتا ہے، اس لیے آپ کو اپنا کام دوسروں سے مختلف کرنا پڑتا ہے اور وہی خبر جو سب چلا رہے ہیں اس خبر کے ایسے زاویے ڈھونڈنے پڑتے ہیں جو دوسرے چینلز پر چلنے والی اسی خبر سے مختلف ہوں کیونکہ اس وقت میڈیا کے درمیان بہت زیادہ مقابلہ ہو رہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے اس وقت مقامی چینلز نے بریکنگ نیوز کی بھی ایک دوڑ شروع کر رکھی ہے لیکن ہر خبر بریکنگ نیوز نہیں ہو سکتی۔
بقول بکر عطیانی: ’اس وقت ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے اور صحافیوں کو جدید ٹیکنالوجی کو سیکھنا چاہیے۔‘
انہوں نے بتایا کہ انڈپینڈنٹ اردو کے نیوز ڈیسک پر کام کرنے والے ہر صحافی کو تربیت دی گئی ہے وہ خود سے ویڈیوز بنا کر سکرپٹ لکھنے، ویڈیو ایڈٹ کرنے اور اسے اپ لوڈ کرنے تک کا عمل خود انجام دے سکتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کو ایڈیٹر ان چیف نے رپورٹنگ کے دوران پیش آنے والے چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے صحافیوں کی حفاطت، سکیورٹی، ڈیٹا کلیکشن، سوشل میڈیا پر آنے والی خبروں کی تصدیق اور خبر کی تصدیق کے لیے متعلقہ ذرائع تک پہنچنے جیسے چیلنجز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صحافی کی سیفٹی بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطین میں 106 صحافی اب تک جان سے جا چکے ہیں۔ انہوں نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کی بھی مثال دی جنہیں پاکستان میں رپورٹنگ کے دوران شدت پسندوں نے پہلے اغوا اور پھر قتل کر دیا تھا۔
بکر عطیانی کا کہنا تھا کہ صحافت میں آنے کے لیے یا صحافی بننے کے لیے جذبے کی ضرورت ہوتی ہے اور صحافی کا کام 24 گھنٹے اور ہفتے کے سات دن چلتا ہے، جس کے لیے اسے تیار رہنا چاہیے۔
کنیئرڈ کالج کے شعبہ ہیومینٹیز کی ڈین پروفیسر ڈاکٹر ماشا اسد خان نے بھی اس موقعے پر بات کرتے ہوئے کہا: ’یہ مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کا دور ہے جس میں سوشل میڈیا نے اور آسانی پیدا کر دی ہے اور ایسے چیلنجز پر بات کرنا بہت اہم ہے جو سچ کے راستے میں آتے ہیں۔‘
انہوں نے نوجوان طلبہ کو صحافتی اقدار سے آگاہی کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے اس اقدام کو بھی سراہا۔
ڈاکٹر ماشا اسد خان کا مزید کہنا تھا کہ ’دنیا بھر میں اردو زبان میں غیر جانبدار خبروں کی فراہمی کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔‘
سیمینار میں انڈپینڈنٹ اردو کی لاہور کی نمائندہ فاطمہ علی نے بھی طالب علموں سے خواتین صحافیوں کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے بات چیت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنے آپ کو منوانا ہوتا ہے کہ وہ بھی مرد صحافیوں کی طرح سوجھ بوجھ رکھتی ہیں اور ان میں ہر طرح کی رپورٹنگ کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین صحافیوں کو اپنا کام جنون سمجھ کر کرنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ فیلڈ میں اپنی سکیورٹی کا بھی خاص خیال رکھنا چاہیے۔
فاطمہ کا کہنا تھا کہ خواتین کو جاب سکیورٹی کا چیلنج بھی ہوتا ہے، خاص طور پر جب وہ شادی شدہ ہوں اور ان کے بچے ہوں۔
اپنی نوکری کو برقرار رکھنے اور بچوں کے بعد ذمہ داری اسی طرح سے پوری کرتے رہنے کے لیے وہ مردوں سے زیادہ کام کرنے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ انہیں یہ نہ کہہ دیا جائے کہ وہ اب کیریئر چھوڑ کر گھر بار سنبھالیں۔
سیمینار میں موجود طالب علموں نے بکر عطیانی اور فاطمہ علی سے مختلف سوالات بھی کیے۔
سیمینار میں موجود طالبات نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ انہیں یہ لگتا ہے کہ پاکستانی میڈیا کا سب سے بڑا چیلنج جانبداری ہے اور میڈیا کو حکومت اور دیگر مافیاز کنٹرول کرتے ہیں، لہذا سب کو مل کر اس کے لیے کام کی ضرورت ہے تاکہ آزاد صحافت پروان چڑھے۔
ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ میڈیا کو اس وقت سب سے زیادہ خطرہ مصنوعی ذہانت سے ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ اس سے بھی بڑا خطرہ میڈیا کو اس کی اپنی کریڈیبلٹی کھو جانے کی وجہ سے ہے۔ کوئی بھی میڈیا تب تک کھڑا رہ سکتا ہے جب کہ اس میں تخلیق اور مستند ہونے کا عنصر پایا جاتا ہے۔
انڈیپینڈنٹ اردو کے انٹرن شپ پروگرام کے حوالے سے ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ یہ ایک انتہائی اچھا قدم ہے کیونکہ جب وہ اپنا کیریئر شروع کریں گی تو کم از کم انہیں یہ معلوم ہوگا کہ کون سے ایسے اچھے پلیٹ فارمز ہیں جہاں سے وہ آغاز کر سکتی ہیں۔
ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس پوری ورکشاپ سے یہ بات سیکھی کہ اگر انہیں صحافی بننا ہے تو انہیں اپنے اندر جوش پیدا کرنا ہوگا کیونکہ یہ جوش اور خواہش ہوگی تو تب ہی وہ وہاں پہنچ پائیں گی، جہاں وہ پہنچنا چاہتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صحافت ایک پُرخطر کام ہے اور اس کے لیے انسان کے اندر جذبہ اور بہادری کا ہونا ضروری ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔