کراچی کو اربن فلڈنگ سے کیسے محفوظ رکھا جائے؟

حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف علاقوں کو بارشوں اور سیلابی صورت حال کا سامنا ہے جبکہ سندھ حکومت نے بھی ’رین ایمرجنسی‘ نافذ کر رکھی ہے۔

31 اگست 2020 کو کراچی میں مون سون کی شدید بارشوں کے بعد سیلاب زدہ رہائشی علاقے سے لوگ گزر رہے ہیں (اے ایف پی / آصف حسن)

پاکستان کے محکمہ موسمیات کی جانب سے سندھ خاص طور پر صوبائی دارالحکومت کراچی میں 29 فروری کی رات سے دو مارچ کی صبح تک گرج چمک کے ساتھ شدید بارش کی پیش گوئی کے بعد شہر میں ممکنہ طور پر اربن فلڈنگ کے خدشے کے باعث سندھ حکومت نے جمعرات کی شام سے ’رین ایمرجنسی‘ نافذ کر رکھی ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تمام سرکاری محکموں کو ہائی الرٹ جاری کرتے ہوئے ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے اور کے الیکٹرک کو واٹر بورڈ کے پمپنگ سٹیشنز کو بلاتعطل بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی۔

وزیراعلیٰ ہاؤس سے میڈیا کو جاری ہونے والے تصاویر اور ویڈیوز میں کراچی شہر کی مختلف سڑکوں پر نکاسی آب کی مشینوں کے ساتھ عملے کو تیار دیکھا گیا۔

کراچی پولیس چیف خادم حسین رند نے بھہ بارشوں سے نمٹنے کے لیے تمام ایس ایس پیز کو الرٹ رہنے کی ہدایت کی۔

محکمہ موسمیات کی جانب سے شدید بارش اور ممکنہ اربن فلڈنگ کی پیش گوئی کے باجود جمعے (یکم مارچ) کو کراچی میں کہیں بھی شدید بارش رپورٹ نہیں ہوئی اور مختلف علاقوں میں ہلکی بارش دیکھی گئی۔

کراچی میں اربن فلڈنگ کی تاریخ

گذشتہ دو دہائیوں کے دوران کراچی میں بارش کے بعد مختلف علاقوں کے زیر آب آنے والی خبریں میڈیا میں آتی رہی ہیں۔ سال 2000 کے بعد تقریباً ہر سال ہی بارشوں کے بعد شہر کے مختلف علاقے زیر آب رہتے ہیں۔

کراچی کو سال 2000 سے 2023 تک سات بار یعنی 2006، 2011، 2012، 2013، 2017، 2020 اور 2022 میں شدید اربن فلڈنگ کا سامنا کرنا پڑا۔

2020 میں جب کراچی شہر کا انتہائی پوش علاقہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) زیر آب آیا تو سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز کے بعد کئی دنوں تک قومی میڈیا کی توجہ ڈی ایچ اے کراچی پر مرکوز رہی۔

سندھ میں گذشتہ تین ادوار سے حکومت میں رہنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالفین بارش کے پانی سے زیرآب آنے والے علاقوں کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرکے سندھ حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتے نظر آتے ہیں۔

اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے حامی صاف راستوں کی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کرکے الزامات عائد کرنے والوں کو جھوٹا قرار دیتے نظر آتے ہیں۔

اربن فلڈنگ کیا ہے؟

جب شدید بارش کے بعد شہر کا نکاسی آب کا نظام بشمول بارش کے پانی کو شہر سے باہر نکالنے کا نظام ناکام ہو جائے اور شہر کا بڑا حصہ زیر آب آجائے تو اسے شہری سیلاب یا اربن فلڈنگ کہا جاتا ہے۔

گذشتہ چند سالوں میں نہ صرف کراچی بلکہ لاہور اور دیگر شہروں میں بھی اربن فلڈنگ رپورٹ ہوتی رہی ہے۔ گذشتہ ہفتے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں شدید بارشوں کے بعد کئی علاقے زیر آب آئے۔

بارشوں کے حالیہ سپیل میں پانچ روز گزرنے کے باوجود گوادر شہر سے بارش کے پانی کی نکاسی نہیں ہوسکی اور سوشل میڈیا پر گوادر کے شہری نکاسی آب کے لیے ویڈیوز میں درخواست کرتے نظر آتے ہیں۔

بارشوں سے متاثرہ گوادر کی صورت حال تاحال خراب ہے۔

کوئٹہ کے صحافی اعظم الفت کے مطابق بلوچستان کی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) ڈائریکٹر جنرل جہانزیب خان نے جمعے کو اعتراف کیا کہ گوادر کی صورت حال میں کوئی بہتری نہیں ہوئی ہے۔ ان کے بقول دو دن میں گوادر اور گرد و نواح میں 187 ملی میٹر بارش ہوئی اور آج پھر97 ملی میٹر بارش سے صورت حال مزید خراب ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پانی کی نکاسی کا کام جاری ہے، فوج سمیت پی ڈی ایم اے، نیوی، ضلعی انتظامیہ، جی ڈی اے اور دیگر ادارے پانی نکالنے کاموں میں مصروف ہیں اور جن گھروں میں پانی داخل ہوگیا ہے ان کے مکینوں کو محفوظ مقامات پر پہنچا دیا گیا ہے۔

نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے بڑے شہروں میں بھی اکثر اربن فلڈنگ کی خبریں آتی رہتی ہیں۔

ستمبر 2023 میں امریکہ کی شمالی ریاست نیویارک میں مسلسل پانچ دنوں تک بارش کے بعد نیویارک شہر کے کئی حصوں میں سیلابی صورت حال یا اربن فلڈنگ دیکھی گئی۔ شہر کی سڑکوں اور پلوں پر سیلابی پانی جمع ہوگیا اور میٹرو سٹیشنز بھی سیلابی پانی میں ڈوب گئے۔

گذشتہ ماہ 12 فروری کو دبئی میں بھی موسلادھار بارش سے سڑکیں زیر آب آنے اور گٹر ابلنے کی ویڈیوز آئیں۔

صحت اور سائنس پر تحقیقی کام کرنے والے عالمی ادارے ’سائنس ڈائریکٹ‘ کی ایک تحقیق کے مطابق اربن فلڈنگ دنیا کے مختلف خطوں میں انتہائی تباہ کن قدرتی آفت کی صورت میں ایک چیلینج بن گئی ہے، جس سے بچنا محال ہوگیا ہے۔

تحقیق کے مطابق دنیا میں خاص طور پر بڑے ساحلی شہروں میں شہری سیلاب کا خطرہ عام ہوگیا ہے، جہاں نہ صرف شدید بارشوں بلکہ بارشوں کے باعث ندی نالوں میں شگاف پڑنے اور سمندر سے آنے والی لہروں کے باعث شہری سیلاب انتہائی خطرناک رخ اختیار کرلیتا ہے۔

کراچی میں اربن فلڈنگ معمول کیوں؟

ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات مہر صاحب زاد خان کے مطابق کراچی میں اربن فلڈنگ کی دو بڑی وجوہات ہیں، جن میں سے ایک ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث موسموں میں شدت کی وجہ سے شدید بارشیں ہونا اور دوسرا ملک بھر سے لوگوں کا کراچی کی طرف مستقل رہائش کے لیے رخ کرنا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مہر صاحب زاد خان نے بتایا: ’ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث اب موسموں میں شدت آ رہی ہے اور چار مہینے کی اوسط بارش اب ایک دن میں برس رہی ہے۔ یہ کراچی جیسے شہر میں اربن فلڈنگ کی پہلی بڑی وجہ ہے۔ دوسری وجہ کراچی شہر کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہونا ہے۔

’ملک کے مختلف حصوں سے لوگ مستقل رہائش کے لیے کراچی کا رخ کر رہے ہیں اور یہ نئے آنے والے لوگ بغیر کسی اربن پلانگ کے آبادیاں بنا رہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے مطلوبہ اربن انفراسٹرکچر اور ڈرینج کا نظام نہ ہونے کے باعث اربن فلڈنگ عام ہو رہی ہے۔‘

محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور عالمی موسمیاتی تنظیم میں پاکستان کے مستقل نمائندے ڈاکٹر غلام رسول نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں بارشوں کا سلسلہ (رین پیٹرن) شمال سے جنوب کی جانب شفٹ ہوا ہے۔

’پہلے شمالی علاقہ جات میں شدید بارشیں ہوتی تھیں، مگر گذشتہ دو دہائیوں سے ماحولیاتی تبدیلی کے باعث بارشوں کا سلسلہ جنوب کی جانب منتقل ہوا ہے، جس کے باعث سندھ اور بلوچستان میں اب شدید بارشیں ہوتی ہیں۔

’اس لیے کراچی میں وقت گزرنے کے ساتھ شدید بارشیں عام ہوتی جا رہی ہیں جو اربن فلڈنگ کا سبب بن رہی ہیں۔‘

کراچی میں اربن فلڈنگ کا سبب برساتی نالوں پر بنی کچی آبادیاں؟

عالمی اداروں کی جانب سے پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر 10 ممالک کی فہرست میں مسلسل شامل رکھا گیا ہے اور 2020 میں شدید سیلاب کے بعد پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر آگیا ہے۔

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر اوچا کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شدید موسمی واقعات کے باعث ہر سال 30 لاکھ افراد یا پاکستان کی کُل آبادی کا ایک اعشاریہ چھ فیصد متاثر ہوتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ماضی میں دنیا کا پانچواں بڑا ڈیلٹا، دریائے سندھ کا ڈیلٹا، جو عالمی معاہدے کے تحت رامسر سائیٹ بھی ہے، گذشتہ دو دہائیوں میں 92 فیصد تک سکڑ چکا ہے۔ اس عرصے کے دوران صرف انڈس ڈیلٹا سے 12 لاکھ لوگ نقل مکانی کرکے کراچی آگئے ہیں، جن کی اکثریت کچی آباد میں مقیم ہے۔

اس کے علاوہ 2010 کے شدید سیلاب، گذشتہ کئی دہائیوں سے صحرائے تھر میں جاری قحط سالی، بلوچستان کے مکران کوسٹ میں خشک سالی، جنوبی پنجاب میں زرعی زمیں کے سکڑنے کے باعث ان علاقوں سے موسمیاتی مہاجرین کی بڑی تعداد نے کراچی کا رخ کیا۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ان خطوں سے کراچی آنے والے موسمیاتی مہاجرین کے علاوہ خیبر پختونخوا میں شدت پسندی کے واقعات کے اضافے سمیت گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے بھی لوگ کراچی آئے ہیں۔

جنسی اور تولیدی صحت کے مسائل پر کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ایف پی اے کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں شہروں کی طرف نقل مکانی کا سب سے زیادہ تناسب پاکستان میں ہے اور 2025 تک ملک کی 50 فیصد آبادی شہروں میں منتقل ہوجائے گی۔

پاکستان کے مختلف خطوں میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث شدید موسمی واقعات کے بعد کراچی نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی اکثریت غریب ہوتی ہے اور وہ گھر خرید نہیں سکتی، تو ان کی اکثریت کچی آبادیوں میں رہائش اختیار کرلیتی ہے اور ان کچی آبادیوں کی اکثریت شہر کی ندیوں یا بارش کا پانی نکاس کرنے والے چھوٹے بڑے نالوں کے کنارے واقع ہے۔

سندھ حکومت کے ہیومن سیٹلمنٹ ڈیپارٹمنٹ (سابق سندھ کچی آبادی اتھارٹی) کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی شہر میں 580 کچی آبادیاں ہیں۔ ماہرین کے مطابق کراچی شہر کی نصف آبادی ان کچی آبادیوں میں آباد ہے۔

کراچی میں ندیوں اور چھوڑے بڑے برساتی نالوں کے اطراف میں قائم کچی آبادی وقت گزرنے کے ساتھ پھیلتی جا رہی ہے اور بارش کے پانی کے نکاس والے یہ نالے سکڑتے جارہے ہیں، جس کے باعث شہر سے بارش کے پانی کی نکاس میں زیادہ وقت لگتا ہے۔  

اورنگی پائلٹ پراجیکٹ (او پی پی) نامی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق کراچی شہر میں لیاری اور ملیر ندیوں کے علاوہ 41 چھوٹے بڑے نالے واقع ہیں، جو شہر سے بارش کا پانی لے کر سمندر لے جاتے ہیں اور ان برساتی نالوں پر انسانی آبادی کراچی شہر میں اربن فلڈنگ کی ایک بڑی وجہ ہے۔

کراچی کے ایک بڑے نالے گجر نالے میں بننے والے گھروں کو ہٹانے پر سپریم کورٹ نے صوبائی حکومت کو روک دیا تھا۔

کراچی شہرمیں نالوں کے علاوہ چھوٹی بڑی جھیلوں پر بھی حالیہ سالوں میں انسانی آبادیاں بنائی گئیں۔ نیو نارتھ ناظم آباد نامی ایک پوش آبادی ہے، جہاں گھر انتہائی مہنگے ہیں، مگر یہ آبادی 2020 اور 2022 کی بارشوں میں مکمل طور پر ڈوب گئی تھی۔ اگر گوگل میپس میں ’منگھوپیر جھیل‘ سرچ کیا جائے تو عین اس جھیل پر یہ نیا ناظم آباد تعمیر کیا گیا صاف نظر آئے گا۔

اربن فلڈنگ سے کیسے محفوظ رہا جا سکتا ہے؟

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق پاکستان بشمول کراچی میں ماضی میں بننے والے رہائشی منصوبے، بنیادی انفراسٹرکچر اور ڈرینج کا نظام ماحولیاتی تبدیلیوں کو مد نظر رکھ کر نہیں بنایا گیا تھا۔ اب بھی جو نئے منصوبے بنائے جا رہے ہیں ان میں بھی پالیسی لیول پر ماحولیاتی تبدیلیوں کو یکسر نظرانداز کیا جا رہا ہے، اس لیے شدید موسموں کے اثرات نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ’بڑے شہروں خاص طور پر کراچی کو اربن فلڈنگ سے بچانے کے لیے سیوریج اور ڈرینج سسٹم کو موسمیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھ کر بنایا جائے۔ پہلے سے موجود سسٹم کو بھی آہستہ آہستہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق ازسر نو تعمیر کیا جائے۔

’کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے اور آنے والے سالوں میں جنوبی پاکستان میں شدید بارشوں کا امکان ہے اور اگر پالیسی لیول پر انفراسٹرکچر کو ماحولیاتی تبدیلی کے مطابق نہ بنایا گیا تو شدید نقصان ہوگا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی انقرہ، ترکی سے سٹی پلاننگ میں ماسٹرز اور انگلینڈ کی لفبرا یونیورسٹی سے سول انجینیئرنگ میں پی ایچ ڈی کرنے والے کراچی کی این ای ڈی یونورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر نعمان احمد کے مطابق اربن فلڈنگ کے حل کے لیے نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے کی تو بات کی جاتی ہے، مگر اس میں صرف برساتی نالوں کا ذکر کیا جاتا ہے جبکہ آبادیوں میں گھروں سے آنے والی پانی کی لائن، نالی اور پھر بڑے نالے تک کو ٹھیک کرنا ہوگا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نعمان احمد نے کہا: ’کسی دور میں کراچی میں نارتھ ناظم آباد بارشوں کے لحاظ سے بہتر سمجھا جاتا تھا کیوں کہ وہاں سڑک کی اونچائی نارمل اور سڑک کے ساتھ نکاسی آب کا نظام تھا اور پانی آسانی سے نکل جاتا تھا، مگر اب سڑکیں آبادیوں سے کئی فٹ اوپر بن گئی ہیں، اس لیے بارش کا پانی نکاس نہیں ہو پاتا۔ 

ان کا مزید کہنا تھا: ’اربن فلڈنگ سے محفوظ رہنے کے لیے بنیادی انفراسٹرکچر کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا اور تمام انفراسٹرکچر کو بدلتے موسموں کے مطابق بنانا ہوگا۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات