موسیقار جتن کو حیرانی ہو رہی تھی کہ نغمہ نگار مجروح سلطان پوری گیت لکھنے کے لیے بمبئی کے قریب پرفضا مقام مدھ آئی لینڈ آئے ہیں لیکن گیت لکھنے کے بجائے رات کا کھانا کھا کر لمبی تان کر سو گئے، آخر وہ گیت کب لکھیں گے؟
قصہ 1990کے آخری مہینوں کا ہے۔ منصور خان ’قیامت سے قیامت تک‘ کے بعد ایک بار پھر نئی تخلیق بنا رہے تھے۔ ’جو جیتا وہی سکندر،‘ جس میں ان کے کزن عامر خان کے علاوہ آئشہ جھلکا، پوجا بیدی، دیپک تجوری اور کھلبوشن شامل تھے۔
موسیقار جوڑی جتن للت کو جب اس فلم کے گانوں کے لیے طلب کیا گیا تو ان کی خوشی ساتویں آسمان پر پہنچی ہوئی تھی۔ موسیقار گھرانے سے تعلق رکھنے والے ان بھائیوں کے گانوں سے سجی پہلی فلم ’یارا دلدارہ‘ کا خاصا چرچا تھا۔ اب ناصرحسین جیسے مشہور اور کہنہ مشق پروڈیوسراور ہدایت کار کے پروڈکشن ہاؤس سے ملنے والی اس پیش کش نے انہیں اس بات پر مجبور کر دیا تھا کہ کچھ بہتر سے بہتر کام کیا جائے کیونکہ ان کی زندگی کا یہی وہ موقع تھا جس کے بعد ان کا کیریئر پلٹا کھا سکتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ دونوں بھائیوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کے اظہار کے لیے دن رات ایک کر دیے۔
کئی دنوں کی عرق ریزی کے بعد آخر کار جتن للت نے ایک دھن تیار کی۔ اب دلچسپ بات یہ ہے کہ موسیقار جوڑی کے لیے کام کرنے والے بابلو چکرورتی نے جب یہ دھن سنی تو وہ تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ اس قدر اوسط درجے کی دھن تیار ہوئی ہے، لیکن جتن للت کو یقین تھا کہ اس دھن پر جب بول لکھے جائیں گے تو یہ ہر ایک کے لبوں پر ہو گی۔ اب دھن منصور خان کو سنائی تو انہیں بھی خاصی بھا گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مشکل یہ تھی کہ مجروح سلطان پوری عام طور پر بول پہلے لکھتے اور پھر اس کے لیے دھن تیار کی جاتی، اسی لیے وہ کسی صورت تیار شدہ دھن پر گیت لکھنے پر آمادہ نہیں تھے، خاص طور پر ایک نئی موسیقار جوڑی کے لیے۔
ناصر حسین نے انہیں سمجھایا کہ اب زمانہ بدل رہا ہے، جو طے شدہ ضابطے اور تقاضے تھے، ان میں بھی جدت آ رہی ہے۔ مجروح سلطان پوری نے اس موقعے پر ایک فرمائش یا شرط پیش کر دی کہ وہ دھن پر نغمہ لکھنے کو تیار ہیں لیکن انہیں بمبئی سے دور کسی جگہ پر بھیجنا ہوگا تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ پرسکون انداز میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کریں۔
ناصر حسین اور ان کے صاحبزادے منصور خان نے مجروح سلطان پوری اور موسیقار جتن کے لیے بمبئی کے قریب پرفضا مقام مدھ آئی لینڈ کے ایک ہوٹل میں بکنگ کروا دی۔ جتن کو یقین تھا کہ رات بھر مجروح صاحب کی سنگت کے بعد وہ صبح کو بہترین بول حاصل کر لیں گے۔
لیکن انہیں مایوسی اس وقت ہوئی جب نغمہ نگار نے رات کا پرتکلف کھانا کھایا اور سونے کے لیے کمرے میں چلے گئے۔ جتن کو یہ فکر ستا رہی تھی کہ آخر کب وہ گیت لکھیں گے، جس کام کے لیے وہ آئے ہیں اس کا آغاز کب کریں گے۔
ادھر مجروح صاحب تو خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔ اسی سوچ بچار میں جتن کی بھی رات کے کسی پہر آنکھ لگ ہی گئی۔
اگلی صبح جب وہ نیند سے جاگے تو انہوں نے دیکھا کہ مجروح سلطان پوری ہوٹل روم کی بالکونی میں کاغذ قلم سنبھال کر خیالوں میں گم ہیں۔ ان کی آنکھیں بند تھیں لیکن جتن کے قدموں کی چاپ سن کر وہ چونکے اورجتن کو دیکھ کر بولے ’ارے میاں اٹھ گئے، آؤ ادھر۔ کچھ لکھا ہے تمہاری دھن کے لیے۔‘
جتن ان کے قریب پہنچے تو مجروح سلطان پوری بولے، ’دیکھو یہ بول تمہاری دھن کے لیے مناسب ہیں؟‘
جتن نے سننے کی فرمائش کی تو مجروح سلطان پوری نے بول پڑھے ’پہلا نشہ پہلا خمار نیا پیار ہے نیا انتظار، کر لوں میں کیا اپنا حال، اے دل بے قرار تو ہی بتا۔‘
اب جتن نے اپنی تیار دھن پر یہ بول گنگنائے تو ایسا لگا کہ جیسے دھن کو معلوم تھا کہ کون سے الفاظ اس پر بٹھائے جائیں گے۔ ایک ایک بول انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ بیٹھا۔ دونوں ناشتے کے لیے جب لفٹ سے ہوٹل کی لابی تک جارہے تھے تو اسی دوران مجروح سلطان پوری نے اس گیت کا انترا ’اڑتا ہی پھروں ان ہواؤں میں کہیں، یا میں جھول جاؤں ان گھٹاؤں میں کہیں، ایک کر لو میں آسمان اور زمین، کہو یارو کیا کروں کیا نہیں،‘ بھی لکھ ڈالا۔
جتن اور مجروح سلطان پوری کی بمبئی واپسی ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے مجروح سلطان پوری نے ان بولوں کی مزید نوک پلک سنوار دی اور پھر ریکارڈنگ سٹوڈیو میں ان بولوں کو دھن پر بٹھایا گیا تو ہر ایک جھوم اٹھا۔
منصور خان کا بھی کہنا تھا کہ یہ ’جو جیتا وہی سکندر‘ کا ایسا گیت بنے گا جو فلم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ پس پردہ گلوکاری کے لیے منصور خان کے من پسند گلوکار اڈت نرائن کو دعوت دی گئی جبکہ ان کا ساتھ سادھنا سرگم دے رہی تھیں۔ اڈت نے اس گیت کی کئی دفعہ ریہرسل کی اور صرف دو ٹیک کے بعد یہ گانا ریکارڈ ہو گیا۔
اس گیت کی عکس بندی تفریحی مقام اوٹی میں ہونی تھی۔ ’جو جیتا وہی سکندر‘ کی کوریوگرافر سروج خان تھیں لیکن یہ بھی اتفاق ہے کہ انہیں ایک انتہائی ذاتی نوعیت کے کام کی بنا پر واپس بمبئی جانا پڑا۔
ایسے میں منصور خان پریشان ہوئے کہ طے شدہ شیڈول کو وہ کیسے پورا کریں گے۔ فرح خان جو فلم میں منصور خان کی معاونت کرنے کے ساتھ ساتھ سروج خان کی ڈانسرز کو ریہرسل بھی کراتی تھیں، اب منصور خان کی پریشانی دیکھ کر انہوں نے سروج خان کی غیرموجودگی میں گیت ’پہلا نشہ پہلا خمار‘ کی کوریوگرافی کرنے کا فیصلہ کیا۔ موسیقی اور بول چونکہ دھیمے دھیمے تھے اسی لیے انہوں نے منصور خان سے یہی فرمائش کی کہ یہ پورا کا پورا گانا سلو موشن میں ہی عکس بند کیا جائے۔
فرح خان نے اس گیت کی ایسی کوریوگرافی اور عکس بندی کی کہ منصور خان ہی نہیں ہر کسی نے فرح خان کو داد دینے میں کنجوسی نہ دکھائی۔ فلم ’جو جیتا وہی سکندر‘ مکمل ہوئی اور پھر 22 مئی 1992 کو سینیما گھروں میں سج گئی لیکن اس سے پہلے ہی ’پہلا نشہ پہلا خمار‘ کی دھن، شاعری اور پھر کوریوگرافی کی دھوم مچ گئی۔
اس گیت سے جہاں موسیقار جوڑی جتن للت کی کامیابی کا نیا دور شروع ہوا، وہیں فرح خان کو بطور کوریوگرافر ایک ایسی پہچان ملی جس نے انہیں وہ مقام دیا، جس کے بعد انہوں نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔
یہی نہیں مجروح سلطان پوری، جن کے ساتھ کام کرتے ہوئے بیشتر موسیقار کتراتے تھے، اس گانے کی وجہ سے انہیں پھر سے اہمیت دینے لگے۔ ’جو جیتا وہی سکندر‘ نے ریکارڈ کامیابی حاصل کی۔
صرف ’پہلا نشہ پہلا خمار‘ ہی نہیں اس فلم کے سارے ہی گیت مشہور ہوئے۔ اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ اس فلم کی میوزک البم 1992 میں تیسری بہترین فروخت ہونے والی البم قرار پائی۔
اگلے سال جب فلم فیئر ایوارڈز کا میلہ سجا تو ’بیٹا‘، ’دیوانہ‘ اور ’خدا گواہ‘ کے بعد ’جو جیتا وہی سکندر‘ کی سب سے زیادہ آٹھ نامزدگیاں ہوئیں۔ ان میں بہترین موسیقاراور نغمہ نگار کی نامزدگیاں تھیں لیکن ایوارڈ بہترین فلم اور بہترین ایڈیٹنگ پر ملا۔
لگ بھگ 32 سال گزر گئے ہیں لیکن آج بھی ’پہلا نشہ پہلا خمار‘ اپنا خمار اور نشہ کم کر نہ پایا۔ بالخصوص پریمی جوڑوں کا تو یہ قومی ترانہ ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔