لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل، الیکشن کمیشن آج ہی شیڈول دے: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے بیوروکریسی سے انتخابی عملے کی تعیناتی کو معطل کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انتخابی عمل کو نہ روکنے کی ہدایت کر دی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ایک منظر (سہیل اختر/انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ نے جمعے کو لاہور ہائی کورٹ کے بیوروکریسی سے انتخابی عملے کی تعیناتی کو معطل کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ آج ہی انتخابی شیڈول جاری کرے۔

الیکشن کمیشن نے آج لاہور ہائی کورٹ کے انتخابی عملے سے متعلق ایک فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس پر مختصر سماعت کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لاہور ہائی کورٹ کو ہدایت کی کہ وہ ریٹرننگ افسران (آر اوز) اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران (ڈی آر اوز) سے متعلق درخواست پر مزید کارروائی نہ کرے۔

الیکشن کمیشن کی سپریم کورٹ میں درخواست لاہور ہائی کورٹ کے ایک حکم کے جواب میں سامنے آئی، جس میں کچھ روز قبل بیوروکریسی سے آر اوز، ڈی آر اوز کی تقرری کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کو معطل کر دیا گیا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے حکم نے بظاہر انتخابی عمل کو تعطل کا شکار کر دیا تھا، جس سے سیاسی جماعتوں بشمول درخواست گزار پی ٹی آئی میں آئندہ سال آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے بڑے پیمانے پر تشویش ظاہر کی۔

پی ٹی آئی نے اپنی درخواست میں آئندہ عام انتخابات کے لیے ڈی آر اوز اور آر اوز کے طور پر کام کرنے کے لیے بیوروکریٹس کی تقرریوں پر اعتراض کرتے ہوئے انتخابی مشق کے لیے نچلی عدلیہ سے عہدے داروں کی تقرری کا مطالبہ کیا تھا۔

چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ ’لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کی درخواست ناقابل سماعت ہے، کیوں نہ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے والے عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس کریں؟‘

’اتنی کیا جلدی تھی کہ اس وقت آنا پڑا؟‘

آج چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت کا آغاز کیا تو الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی روسٹرم پر آئے اور لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا ’اتنی کیا جلدی تھی کہ اس وقت آنا پڑا؟‘، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ انتخابات آٹھ فروری کو کروانے کے لیے آج درخواست لازم تھی۔ ’آج شیڈول سے پہلے 55 واں روز ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا: ’اگر میری فلائٹ نکل جاتی تو کیا ہوتا؟ خیر آئینی ذمہ داری ہے پوری کرنی ہے۔‘

وکیل نے اپنے دلائل میں کہا لاہور ہائی کورٹ نے آر اوز، ڈی آر اوز بیوروکریسی سے کام لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کیا ہے، جس سے انتخابی عمل رک گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کی درخواست پر ریٹرننگ افسران کی تعیناتی کالعدم قرار دی گئی، اور یہ فہرست حکومت دیتی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا درخواست گزار کیا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے بتایا ’درخواست گزار چاہتے ہیں ریٹرننگ افسران عدلیہ سے لیے جائیں۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’ریٹرننگ افسران تو ہائی کورٹ کی مشاورت سے تعینات ہوتے ہیں،‘ تو وکیل نے کہا ’ہم نے تمام ہائی کورٹس کو خطوط لکھے تھے مگر افسران فراہم نہیں کیے گئے، عدالتوں کی جانب سے افسران کی عدم فراہمی پر دیگر اداروں سے افسران لیے گئے۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ’کیا آرٹیکل 218 تین میں کچھ ایسا ہے کہ انتخابات فیئر نہیں ہو سکتے؟‘

وکیل سجیل سواتی نے کہا الیکشن ایکٹ کا سیکشن 50 اور 51 چیلنج کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا افسران مقرر کرنے کا حق کالعدم قرار دیا جائے، درخواست میں استدعا تھی کہ الیکشن کمیشن کو عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینے کی ہدایت کی جائے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا یہ شق تو کبھی بھی چیلنج کی جا سکتی تھی اب ہی کیوں ایسا ہو رہا ہے؟

وکیل نے جواب دیا الیکشن کمیشن نے عدلیہ کو فروری میں جوڈیشل افسران کے لیے خط لکھا تھا، عدلیہ نے زیرالتوا مقدمات کے باعث جوڈیشل افسران دینے سے معذوری ظاہر کی تھی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا ہائی کورٹ کے خط کے بعد درخواست گزار کیا انتخابات ملتوی کروانا چاہتے تھے؟ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا ’اسلام آباد ہائی کورٹ نے جواب نہیں دیا جبکہ پشاور ہائی کورٹ نے کہا جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی سے رجوع کریں۔‘

’لاہور ہائی کورٹ اس قسم کا فیصلہ کیسے دے سکتی ہے؟‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’لاہور ہائی کورٹ اس قسم کا فیصلہ کیسے دے سکتی ہے؟ سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے تو انتخابات میں تاخیر کیسے کی جاسکتی ہے؟ لاہور ہائی کورٹ میں اب کیا صورت حال ہے؟‘

اس پر وکیل نے بتایا کہ ہائی کورٹ میں پانچ رکنی لارجر بینچ سوموار کو کیس کی سماعت کرے گا۔

چیف جسٹس نے بینچ کی سربراہی سے متعلق استفسار کیا تو وکیل نے عدالت کو بتایا جس جج نے فیصلہ دیا تھا وہی پانچ رکنی لارجر بینچ کی سربراہی کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا ’یہ بہت عجیب بات ہے کہ فیصلہ دینے والا جج ہی لارجر بینچ کی سربراہی کر رہا ہے، اگر ایک جج لارجر بینچ بنانے کا فیصلہ دے رہا ہے تو ہم کیسے مداخلت کریں؟ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست کس نے دائر کی؟ یہ عمیر نیازی کون ہیں؟‘

وکیل نے بتایا عمیر نیازی کے مطابق وہ پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ایک شخص کی درخواست پر پورے ملک کے ریٹرننگ افسران معطل کر دیے گئے۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’عمیر نیازی کی درخواست تو سپریم کورٹ کے حکم کی توہین ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا ’الیکشن کمیشن افسران اور ڈپٹی کمشنرز بھی انتخابات نہ کروائیں تو کون کروائے گا؟ تمام ڈی آر اوز متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنرز ہیں، اگر عدلیہ کے افسران، الیکشن کمیشن یا ایگزیکٹیو انتخابات نہ کروائیں تو کون کروائے گا؟ اس سے تو بادی النظر میں انتخابات ملتوی کروانا ہی مقصد نظر آتا ہے۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ’لاہور ہائی کورٹ کے جج نے مس کنڈکٹ کیا ہے، سپریم کورٹ کی حکم عدولی مس کنڈکٹ ہے۔ ایک ہائی کورٹ کا جج کیسے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکم دے سکتا ہے؟ عجیب بات ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کا جج ایسا آرڈر دے رہا ہے؟‘

’انتخابی شیڈول آج جاری ہونا لازمی ہے‘

دوران سماعت جسٹس طارق مسعود نے استفسار کیا کہ کون لوگ ہیں جو الیکشن نہیں چاہتے؟ سپریم کورٹ نے انتخابات ڈی ریل کرنے سے روکا تھا، کون الیکشن کے راستے میں رکاوٹ ہے؟

چیف جسٹس نے کہا: ’عدلیہ سے ایسے احکامات آنا حیران کن ہے۔ کیا کمرہ عدالت میں کوئی پی ٹی آئی والا بیٹھا ہے؟ ہم ان سے پوچھیں تو سہی کہ انہوں نے آر آوز کیوں چیلنج کیے؟ حد ہو گئی، الیکشن شیڈول ابھی تک کیوں جاری نہیں کیا گیا؟ ہم سب کو بلا لیتے ہیں انتخابی شیڈول آج جاری ہونا لازمی ہے۔‘

جب چیف جسٹس برہم ہو گئے

الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس فیصلہ لکھوا رہے تھے کہ ایک خاتون ڈائس پر آئیں اور چیف جسٹس کو مخاطب کرنے کی کوشش کی جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برہم ہوتے ہوئے بیٹھنے کا کہا اور پوچھا کہ وہ کیسے فیصلہ لکھوانے کے دوران مداخلت کر رہی ہیں۔

انہوں نے خاتون کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا وہ وکیل ہیں اور انہوں نے کہاں سے تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے ڈائس پر موجود وکلا سے پوچھا کہ آیا خاتون ان کے ساتھ آئی ہیں، جس پر وکلا نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے خاتون کو دوبارہ مخاطب کرتے ہوئے پچھلی نشتوں پر بیٹھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے آئندہ ایسی حرکت کی تو توہین عدالت کا چارج لگے گا۔

پی پی پی، ن لیگ، استحکام پارٹی کا فریق بننے کا اعلان

آج ہی پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن اور استحکام پاکستان پارٹی نے فیصلے کے خلاف فریق بننے کا اعلان کیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پیغام میں کہا: ’لاہور ہائی کورٹ کے ریٹرننگ افسران سے متعلق فیصلے کے خلاف لارجر بینچ میں فریق بنے گی۔

’پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف اور صدر شہباز شریف نے پارٹی کو گرین سگنل دے دیا۔ مسلم لیگ (ن) کی لیگل ٹیم نے پٹیشن تیار کرنا شروع کر دی۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک اعلامیے کے مطابق پارٹی نے لاہور ہائی کورٹ کے عام انتخابات کے کیس میں پارٹی بننے کا فیصلہ کیا ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا: ’چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی  پارلیمنڑیرین آصف علی زرداری نے فوری طور پر پیٹیشن فائل کرکے فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

سابق وفاقی وزیر اور استحکام پاکستان پارٹی کی رہنما ڈاکٹر عاشق فردوس اعوان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے بھی فیصلے کے خلاف فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

’الیکشن کے اعلان کے بعد ملک استحکام کی جانب گامزن ہوا لیکن تحریک انصاف ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتی ہے۔ یہ الیکشن کا التوا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اب ’Electable‘ نہیں ’Rejectable‘ ہیں۔‘

پی ٹی آئی پر الیکشن میں تاخیر کا الزام

س سے قبل الیکشن کمیشن کی جانب سے ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کے تربیتی سیشن کو روکنے کے ایک دن بعد پی پی پی اور ن لیگ نے آج پاکستان تحریک انصاف پر عام انتخابات میں تاخیر کی کوشش کا الزام لگایا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق وفاقی وزیر شیری رحمان نے ایک بیان میں کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد انتخابات میں تاخیر کی افواہیں گردش کرنے لگیں ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی کے ’دوہرے معیار‘ نے انتخابی شیڈول کے اجرا میں تاخیر کی۔ ’اس کا ذمہ دار کون ہے؟‘

پیپلز پارٹی کی رہنما نے دعویٰ کیا کہ ’پی ٹی آئی نے ایک بار پھر انتخابی عمل کو پٹڑی سے اتارنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ان کی غیر جمہوری اور غیر سیاسی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ پی ٹی آئی نہیں چاہتی کہ ملک میں انتخابات ہوں۔

انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پیپلز پارٹی انتخابات کے لیے پوری طرح تیار ہے اور امید ظاہر کی کہ عدلیہ اس معاملے کو جلد حل کر لے گی۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے بھی پی ٹی آئی پر ملک میں ’انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی سازش‘ کا الزام لگایا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں: 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست