وزیراعظم کے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد ایوان میں یا ذرائع ابلاغ پر کی گئی پہلی تقریر وزیراعظم کی اس سوچ کی عکاس ہوتی ہے جو اس نے برسراقتدار آنے سے پہلے اپنے منشور کے طور پر پیش کی ہوتی ہے یا ملک اور قوم کی ترقی کے ان وعدوں کے ایفا کا مظہر ہوتی ہے جو اس نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے ہوتے ہیں۔
یہ الگ بات کہ ان میں سے بیشتر وعدے ایوان کی حد تک ہی محدود رہ جاتے ہیں۔
پاکستان کے قیام سے تین دن قبل 11 اگست 1947 کو قائداعظم محمد علی جناح نے کہا کہ ’اس وقت ہندوستان جس بڑی لعنت میں مبتلا ہے وہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے، ہمیں نہایت سختی سے اس کا قلع قمع کر دینا چاہیے۔ ایک اور لعنت احباب پروری اور اقربا نوازی ہے جسے ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘
مگر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اس ملک کو سب سے زیادہ جن لعنتوں نے نقصان پہنچایا وہ یہی دو لعنتیں ہیں۔
اسی تقریر میں قائداعظم نے ملک کو ایک سیکولر ریاست بنانے کا عندیہ دیا اور کہاکہ اب آپ آزاد ہیں، اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں آپ کا تعلق کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے ہو، کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ مگر ہوا یہ کہ اسی رات قائداعظم کی تقریر کے اس حصے کو سنسر کرنے کی کوشش کی گئی جسے ڈان کے مدیر الطاف حسین نے ناکام بنایا۔
قیام پاکستان کے پہلے دن 15 اگست 1947 کی صبح قائداعظم نے ریڈیو پاکستان سے قوم سے خطاب کیا اور پاکستان کے تمام شہریوں کو پاکستان کی خود مختار مملکت کے قیام کی مبارک باد پیش کی اور کہا کہ اس نئی مملکت کے وجود میں آ جانے سے پاکستان کے باشندوں پر زبردست ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اب انہیں دنیا کو یہ ثابت کردکھا دینا چاہیے کہ کس طرح ایک قوم جس میں مختلف عناصر شامل ہیں آپس میں مل جل کر صلح و آشتی کے ساتھ رہتی ہے۔
اسی دن نواب زادہ لیاقت علی خان نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا، مگر انہوں نے اس دن کوئی تقریر نہیں کی، ان کا جو بیان تاریخ میں محفوظ ہے وہ 18 اگست 1947 کو عیدالفطر کے موقعے پر دیا گیا۔
اس بیان میں نواب زادہ لیاقت علی خان نے اعلان کیا کہ ’میری شدید خواہش ہے کہ امیر امیرتر اور غریب، غریب تر نہ ہوتا چلا جائے، پاکستان میں غریب کے حقوق و مفادات کو اولیت حاصل ہو گی اور بعد میں کسی دوسرے کے۔
’ہم غریب کے استحصال، ناجائز منافع خوری اور بدعنوانی کو کسی بھی شکل میں برداشت نہیں کریں گے اور نہ ہی اس کی اجازت دیں گے۔ میں بدعنوان افراد کو یہ واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ خواہ وہ کسی بھی جگہ پر یا کسی بھی عہدے پر ہوں ان کے دن گنے جا چکے ہیں۔‘
چار برس بعد نواب زادہ لیاقت علی خان جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے شہید کر دیے گئے۔ ان کے بعد خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرا، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر اور فیروز خان نون پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے بھی اپنی اولین نشر تقاریر میں اسی نوعیت کے دعوے کیے، مگر ملک بےڈھب طریقے سے چلتا رہا، محلاتی سازشیں اور طوائف الملوکی اپنے عروج پر رہیں، جس کا نتیجہ اکتوبر 1958 میں مارشل لا کی صورت میں برآمد ہوا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مارشل لا فوج کے سربراہ نے نہیں بلکہ صدر مملکت اسکندر مرزا نے نافذ کیا تھا۔ مارشل لا کے نفاذ کے بعد چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان نے قوم سے خطاب کیا۔
انہوں نے سیاست دانوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ’سیاست دانوں نے کمینگی، اوچھے پن، فریب دہی اور ذلت کی انتہا کر دی، انہوں نے صوبائیت، فرقہ پرستی، مذہبی اور نسلی اختلاف کو ہوا دی، انہیں اپنے سوا کسی میں کوئی خوبی نظر نہ آتی تھی، وہ اقتدار کے حصول کے لیے دیوانہ وار بھاگ رہے تھے، عوام اور ملک خواہ جہنم میں جائیں انہیں اپنے حلوے مانڈے سے کام تھا۔‘
جنرل ایوب خان نے مزید کہا کہ ’مذہب اور ثقافت کی تمام اعلیٰ اقدار اور نظریات پامال کر دیے گئے ہیں اور ملک اقتصادی، انتظامی، سیاسی اور اخلاقی بدنظمی کا شکار ہے جسے آج کل کے خطرناک دور میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
’ہمارے ملک کو بہت سے داخلی مسئلے حل کرنے ہیں اور ملک کو بیرونی خطرات سے بھی محفوظ کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے ملک میں ایک مستحکم بنیاد کی ضرورت ہے۔‘
جنرل ایوب خان کا دور حکومت ساڑھے دس برس تک جاری رہا۔ ان کے دور حکومت کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو قوم سے خطاب کرتے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ عوامی مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔
1962 میں انہوں نے ملک کو ایک آئین دینے کی کوشش بھی کی مگر یہ وہی آئین تھا جس میں اختیارات کا سرچشمہ اور مرکز صدر مملکت کی شخصیت تھی۔ بقول بعض مبصرین کے اس آئین میں صدر کی حیثیت فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی سی تھی جہاں ہر راستہ آ کر ملتا تھا۔ اسی آئین کے خلاف حبیب جالب نے اپنی مشہور نظم دستور تحریر کی تھی۔
1964-65 میں ملک میں صدارتی انتخابات منعقد ہوئے جس میں بنیادی جمہوریت کے نظام کا تجربہ کیا گیا اور ایوب خان بھاری اکثریت سے محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دے کر ایک مرتبہ پھر ملک کے صدر بن گئے۔
1968 میں جب ایوب خان کی حکومت کے دس سال مکمل ہوئے تو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور ایوب خان کے خلاف ایک ملک گیر تحریک کا آغاز ہوا۔ پشاور میں ایوب خان پر ناکام قاتلانہ حملہ بھی ہوا، ہر گلی محلے میں حکومت کے خلاف جلوس نکالے جانے لگے۔
ایوب خان نے اپنی حکومت بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی مگر معاملات ان کے ہاتھ سے نکلتے چلے گئے اور 25 مارچ 1969 کو انہوں نے اقتدار ایک نئے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد یحییٰ خان کے سپرد کر دیا۔
26 مارچ 1969 کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے یحییٰ خان نے بھی کم و بیش یہی الفاظ دہرائے اور کہا کہ ’ہم تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں، پچھلی حکومت کے خلاف تحریک کی وجہ سے ہمارے قومی وقار اور ہماری ترقی کو سخت دھچکا لگا ہے۔ ہماری انتظامیہ کسی بھی طرح کے مظاہرے اور تخریبی کارروائیاں برداشت نہیں کرے گی، لہٰذا میں ہر شخص کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ ملک کی اقتصادیات کو جو نقصان پہنچا ہے اس کے ازالے اور پاکستان کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا اپنا فرض منصبی ادا کرنا شروع کر دیں۔‘
چند روز بعد یحییٰ خان نے ایک پریس نوٹ جاری کر کے بغیر حلف اٹھائے صدر مملکت کا عہدہ سنبھال لیا۔
چار اپریل 1969 کو انہوں نے1962 کے آئین کومنسوخ کرکے ایک عبوری آئین کا حکم نامہ جاری کیا اور کہا کہ 25 مارچ 1969 کے مارشل لا کے فرمان، مارشل لا ضابطوں، احکامات اور فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔
28 نومبر 1969 کو انہوں نے قوم سے خطاب کیا اور کہا کہ 1970انتخابات کا سال ہو گا، یہ انتخابات سات دسمبر 1970 کو منعقد ہوئے مگر خود صدر مملکت نے ان انتخابات کے نتائج قبول کرنے سے انکار کردیا، نتیجہ ملک کے مشرقی حصے میں خانہ جنگی کی صورت میں برآمد ہوا اور 16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان ہمیشہ کے لیے پاکستان سے جدا ہو گیا۔
اب ملک کے مغربی حصے کی باگ ڈور ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ آئی، جنہوں نے 20 دسمبر 1971 کو ملک کے صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا۔ وہ پاکستان کی تاریخ کی پہلی شخصیت تھے جو سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے تھے۔
اپنی پہلی تقریر میں جو ریڈیو اور ٹیلی وژن سے براہ راست نشرہوئی انہوں نے اعلان کیا کہ ’ہم اپنی زندگی کے بدترین بحران سے دوچار ہیں، ہمیں ٹکڑے جمع کرنے ہیں، بہت چھوٹے چھوٹے ٹکڑے، ہم نیا پاکستان بنائیں گے، ایک ایسا پاکستان جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا۔‘
اس پہلی تقریر میں انہوں نے متعدد فوجی حکام کو ان کے عہدوں سے سبک دوش کرنے کا اعلان کیا اور جنرل گل حسن خان کو پاکستان کی بری فوج کا سربراہ مقرر کر دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ملک کوایک متفقہ آئین نصیب ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ 1977 میں انہوں نے ملک میں عام انتخابات منعقد کروائے جن کے نتائج حزب اختلاف کی جماعتوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ملک گیر تحریک کا آغاز کر دیا۔
اس تحریک کے ڈانڈے بیرون ملک سے ملتے تھے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان طویل مذاکرات کا آغاز ہوا، جب معاملات کسی صورت بھی سدھر نہ سکے تو پانچ جولائی 1977 کو بری فوج کے سربراہ جنرل محمد ضیا الحق نے تیسرا ملک گیر مارشل لا نافذ کر کے اقتدار سنبھال لیا۔
اسی رات انہوں نے بھی ریڈیو اور ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کیا جو ’میرے عزیز ہم وطنو!‘ کے الفاظ سے شروع ہوا۔ یہ الفاظ آج روزمرہ زبان کا حصہ بن چکے ہیں۔
انہوں نے اس تقریر میں کہا، ’میں صاف صاف اس بات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ میرے نہ کوئی سیاسی مقاصد ہیں اور نہ ہی افواج اپنے سپاہیانہ کردار سے روگردانی کرنے کی خواہش مند ہیں۔ میں نے یہ اقدام بوجوہ مجبوری سیاست دانوں کے پیدا کیے ہوئے خلا کو پر کرنے کے لیے اٹھائے ہیں۔
’اس کام کا بیڑہ میں نے اسلام کے ایک سچے سپاہی کی حیثیت سے اٹھایا ہے۔ میرا واحد مقصد آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانا ہیں جو اسی سال اکتوبر میں ہوں گے۔ انتخابات کے بعد اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کر دیا جائے گا۔ میں پختہ یقین دلاتا ہوں کہ میں اس سے انحراف نہیں کروں گا۔
’میں عدلیہ کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں لیکن ناگزیر اسباب کی بنا پر کوئی مارشل لا احکام یا ریگولیشن نافذ کرنا ضروری ہے تو انہیں کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔
’سیاسی جماعتوں کے مابین اختلافات اتنے شدید ہو گئے ہیں جذبات کو سرد ہونے کے لیے کچھ وقت درکار ہے اس لیے میں نے آج سے تاحکم ثانی تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی ہے۔ انتخابات سے قبل سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے دی جائے گی۔‘
جنرل محمد ضیا الحق نے وعدہ تو کیا تھا کہ عام انتخابات اکتوبر 1977 میں منعقد ہوں گے مگر یہ وعدہ بار بار ٹوٹتا رہا بلآخر فروری 1985میں غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات منعقد ہوئے۔ اگلے بیس پچیس دن تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ وزارت عظمیٰ کا ہما کس رکن اسمبلی کے سر بیٹھے تھے۔
بالآخر پیر پگارا کی تجویز پر محمد خان جونیجو ملک کے وزیراعظم بنے۔ لگ یہ رہاتھا کہ وہ ایک کمزور وزیراعظم ثابت ہوں گے مگر حلف اٹھانے کے بعد پہلی ہی تقریر میں ان کے اس جملے نے جنرل ضیا الحق کو چوکنا کر دیا کہ ’مارشل لا اور سول حکومت زیادہ وقت کے لیے اکٹھے نہیں چل سکتے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرا فرض ہو گا کہ قانون کی بالادستی اور معاشرے کو انصاف مہیا ہو، میں عوام کے حوصلوں کو برقرار رکھنے اور بلند کرنے کے لیے اپنا فرض ادا کروں گا۔ انہوں نے رشوت خوروں کو بھی متنبہ کیا کہ ان کے لیے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں، وہ رشوت خوری کو ترک کردیں اور یہ راستے ہمیشہ کے لیے بھول جائیں۔‘
محمد خان جونیجو کی حکومت سوا تین سال چلی۔ 29 مئی 1988 کو جنرل محمد ضیا الحق نے ان کی حکومت ہی نہیں بلکہ قومی اسمبلی کو بھی توڑنے کا اعلان کر دیا۔
اگلے روز 30 مئی کو انہوں نے قوم سے خطاب کیا اور کہا کہ ’وزیراعظم مکمل طور پر سیاسی دباﺅ کو شکار ہو چکے تھے جس سے کرپشن، اقربا پروری اور بدنظمی عام ہو چکی تھی اور ملک میں امن و امان کی صورت حال مکمل طور پر بگڑ کر رہ گئی تھی۔‘
مگر محمد خان جونیجو نے جنرل ضیا الحق کے الزامات کو مکمل یک طرفہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ملک کی سیاست میں وقار و احترام اور شائستگی کو متعارف کروایا تھا اور صدر کا یہ دعویٰ بلاجواز تھا۔
تین ماہ بعد جنرل ضیا الحق ایک فضائی حادثے میں وفات پا گئے۔ اسی رات سینیٹ آف پاکستان کے چیئرمین غلام اسحاق خان نے ملک کے سربراہ کا عہدہ سنبھال لیا۔ حسبِ توقع اسی رات انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ضیا الحق کے انتقال کا سانحہ ایک عظیم المیہ ہی نہیں قوم کے لیے ایک کڑی آزمائش ہے، ایک ایسی آزمائش جس سے ہمیں متحد ہو کر گزرنا ہے، زندہ قومیں آزمائش کی ایسی گھڑی سے صبر، اتحاد، استقامت اور یقین محکم کے ساتھ سرخرو ہو کر نکلتی ہیں، آزمائشوں کی آگ قوموں کو کندن بنا دیتی ہے، ان کے جوہر اور نکھر جاتے ہیں، ان کا عزم بلند تر اور پائندہ تر ہو کر سامنے آتا ہے، مجھے یقین ہے کہ ہم بھی آج اس آزمائش سے ایک مضبوط تر اور متحدہ قوم بن کر ابھریں گے۔‘
اس خطاب میں صدر غلام اسحاق خان نے وعدہ کیا تھا کہ ملک کے عام انتخابات طے شدہ پروگرام کے مطابق 16 نومبر کو منعقد ہوں گے اور انتخابات کو پر امن، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ طور پر منعقد کروانے کے سلسلے میں حکومت اپنی تمام تر ذمہ داریاں پوری کرے گی۔
16 نومبر کو انتخابات منعقد ہوئے مگر کسی بھی سیاسی جماعت کو سادہ اکثریت نہ مل سکی۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی جس کے نتیجے میں اسے کچھ سمجھوتوں کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کو ملک کا وزیراعظم نامزد کر دیا اور انہیں حکومت سازی کی دعوت دی۔
دو دسمبر 1988 کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ اسی شام انہوں نے قوم سے خطاب کیا اور مارشل لا دور کے غیر منصفانہ اقدامات اور زیادتیوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اپنے شہیدوں کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ انسانی تاریخ میں شاید ہی کسی قوم نے جمہوریت کی بحالی کے لیے اتنی بڑی جدوجہد کی ہو۔
انہوں نے کہا کہ ’ہماری پارٹی کے جن کارکنوں کو ملازمتوں سے برطرف کیا گیا انہیں باعزت طریقے سے بحال کیا جائے گا۔ ہم اپنے سیاسی قیدیوں کو فوری طور پر رہا کرنا چاہتے ہیں مگر آٹھویں ترمیم ایک رکاوٹ ہے ہم یہ رکاوٹ توڑ دیں گے اور وہ طریقہ ڈھونڈیں گے جس کے مطابق وہ سیاسی قیدی باعزت طریقے سے جیل کے دروازوں سے باہر آ جائیں۔‘
انہوں نے پریس کو آزاد کرنے اور نیشنل پریس ٹرسٹ توڑنے کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ پریس کی آزادی کے منافی تمام قاعدے قوانین منسوخ کر دیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ٹیلی وژن اور ریڈیو کو خود مختاری دیں گے تاکہ یہ عوام کی پوری طرح خدمت کر سکیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے طلبہ سیاست پر عائد پابندیوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔
ایک طویل مارشل لا اور فوجی حکومت کے خاتمے کے بعد محترمہ بےنظیر بھٹو کے یہ اقدامات اسٹیبلشمنٹ کس طرح قبول کر سکتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صرف 20 ماہ بعد ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔
1990میں میاں محمد نواز شریف، 1993 میں بے نظیر بھٹو اور 1997 میں پھر میاں محمد نواز شریف ملک کے وزیراعظم بنے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام کا سلسلہ جاری رہا حتیٰ کہ 12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف نے مارشل لا لگائے بغیر ملک کا اقتدار سنبھال لیا۔
انہوں نے اپنے لیے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ پسند کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے برسراقتدار آنے کے بعد اپنے اثاثوں کا اعلان کیا اور کہاکہ ان کا سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
2002 میں جنرل پرویز مشرف کو بھی ملک میں عام انتخابات منعقد کروانے پڑے جس کے نتیجے میں پہلے میر ظفر اللہ خان جمالی اور پھر چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیز ملک کے وزرائے اعظم بنے۔
انہوں نے بھی اپنے پہلے خطابات میں اپنے پیش روﺅں کی طرح بلند و بانگ دعوے کیے۔ 2008 میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں یوسف رضا گیلانی وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئے۔ 2013 کے عام انتخابات میں میاں محمد نواز شریف تیسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور خطابات کا سلسلہ جاری رہا۔
25 جولائی 2018 کو ملک ایک مرتبہ پھر عام انتخابات کے تجربے سے گزرا۔ اس مرتبہ وزارت عظمیٰ کا ہما پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے سر بیٹھا۔ انہوں نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد 19 اگست 2018 کو قوم سے طویل خطاب کیا اور بدعنوانی کا نشانہ بنانے والی اور انسانی ترقی پر مرکوز اصلاحات کا اعلان کیا۔
انہوں نے ایک گھنٹہ سے زائد خطاب کرتے ہوئے، ایک اسلامی فلاحی ریاست تعمیر کرنے سے متعلق اپنی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں کو دہرایا لیکن ایسے مسائل کا بھی تذکرہ کیا جن کا ذکر پاکستانی وزرائے اعظم خال ہی کیا کرتے ہیں، مثلاً بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ماحولیاتی تبدیلی۔
انہوں نے نام لیے بغیر ہمسایوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات، اور بلوچستان اور افغانستان کے ساتھ سرحد کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقہ جات میں سیکیورٹی بہتر بنانے کا عہد کیا۔
انہوں نے ایک تدریجی ٹیکس نظام کو ناگزیر قرار دیا اور ضرورت مندوں کے فائدہ کے لیے دولت مندوں کو بلند شرح فیصد ادا کرنے کی ترغیب دی۔ تاہم، انہوں نے وضاحت نہیں کی کہ وہ، بطورخاص دولت مندوں پر، مزید ٹیکس کیسے نافذ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ غیر ملکی قرضہ کم کرنے کے لیے پاکستان سادگی کی ایک مہم کا آغاز کرے گا۔ آغاز کے لیے عمران خان نے اپنے اور ملک کے بجٹ کو کم کرنے کے لیے اقدامات کا اعلان کیا، جس میں وزیراعظم کے دفتر کے عملہ کو 524 سے کم کر کے دو تک لانا شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں تین بیڈ روم کے ایک گھر میں رہوں گا جو ملٹری سیکریٹری کے گھر کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ کو ایک یونیورسٹی بنایا جائے گا۔انہوں نے کہا، ’میں بدعنوانوں کے خلاف لڑوں گا، یا تو یہ ملک بچے گا، یا بدعنوان۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمران خان کی تقریر کے دیگر بڑے نکات میں مالیاتی، تعلیمی اور نگہداشت صحت کے شعبوں کی اصلاحات، ملک کی تعمیر نو میں بیرون ملک پاکستانیوں سے مدد کا مطالبہ، عدلیہ کی تعمیر نو، صوبہ پنجاب میں خیبر پختونخوا کا پولیسنگ ماڈل نافذ کرنا اور طاقت کا اسلام آباد سے منتقلی شامل ہیں۔ عمران خان کے وعدے متعدد پاکستانیوں کے دل کی آواز تھے مگر افسوس کہ ان میں سے بیشتر وعدے، وعدے ہی رہے۔
حزب اختلاف نے عمران خان کے ان دعوﺅں کو جذباتی قرار دیا اور دہشت گردی اور عسکریت پسندی کو نظرانداز کرنے پر سخت تنقید کی۔
اپریل 2022 عدم اعتماد کی ایک تحریک کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا، اب پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا پہلا ہدف پاکستان کی معیشت کو پروان چڑھانا ہے جو اس وقت انتہائی گمبھیر صورت حال سے دوچار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’میں وزیراعظم نہیں خادم پاکستان ہوں، پاکستان قوم ایک عظیم قوم بنے گی، دنیا میں بھکاریوں کو کون پوچھتا ہے، ہمیں زندہ رہنا ہے تو باوقار طریقے سے خودداری سے جینا ہو گا۔‘
انہوں نے مزدور کی کم از کم ماہانہ اجرت بڑھا کر 25 ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا اور نجی شعبے کو بھی تجویز پیش کی کہ ایک لاکھ سے کم تنخواہ وصول کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کیا جائے۔
انہوں نے ملک میں سستا آٹا فراہم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے رمضان پیکیج کا اعلان کیا۔ انہوں نے بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کو بھی دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں دس فیصد اضافے کا بھی اعلان کیا۔
لیکن افسوس یہ وعدے وفا کی منزل تک نہ پہنچ سکے۔ ایک جانب پیٹرول کی قیمت بڑھنی شروع ہوئی جس نے ملک بھر میں مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا۔ دوسری جانب ڈالر کی قیمت قابو سے باہر نکل گئی اور وہ 300 روپے کی حد عبور کر گیا۔
نگراں حکومت کے دور میں پیٹرول اور ڈالر کی قیمتیں کم تو ہوئیں مگر مہنگائی کا جو جن بوتل سے باہر نکل چکا تھا اسے واپس بوتل میں بند نہ کیا جا سکا۔
اب میاں شہباز شریف ایک مرتبہ پھر ملک کے وزیراعظم منتخب ہو چکے ہیں، دیکھتے ہیں کہ وہ وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں قوم کو کیا خواب دکھاتے ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔