یادگار دستور تو بن گئی لیکن آئین کا دفاع کس کی ذمہ داری؟

 سات سیڑھیاں آئین کے سات شیڈول کی نشاندہی کرتی ہیں جبکہ دو سو ستتر لائٹس اس کی دو سو ستتر دفعات کی عکاسی کرتی ہیں۔ چار پلانٹرز چاروں صوبوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

بظاہر سادہ دکھنے والے اس ڈیزائن میں تمام چیزیں آئین سے مطابقت رکھتی ہیں (حمزہ قمر/انڈپینڈنٹ اردو)

اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے 1973 کے آئین پاکستان کی یادگار دستور بنانے کا مقصد اسے بنانے والوں کے مطابق عام لوگوں کو آئین کے خدوخال سے آگاہ کرنا ہے۔

البتہ پاکستان میں اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ آئین کی اصل محفاظ تو خود پارلیمان ہے جہاں سیاسی یا ذاتی فوائد کی خاطر اسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا رہا ہے۔

خود سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے حوالے سے دائر درخواستوں کی سماعت میں گذشتہ دنوں قرار دیا کہ آئین کے اصل محافظ وہ نہیں بلکہ عوام کی منتخب نمائندہ پارلیمان ہے۔

آئین پاکستان تو عوام کو بہت سارے حقوق دیتا ہے جو آئین کی کتاب کی شکل میں لکھ دیے گئے تھے لیکن مبصرین کے مطابق زمینی حقائق ان سے کہیں متصادم نظر آتے ہیں۔

چند برس پہلے جب ایک ڈپٹی سپیکر نے اسمبلیاں تحلیل کیں تو اس روز بلاول بھٹو زرداری نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم کسی بھی صورت میں آئین پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ اگر ہم قومی اسمبلی میں آئین کو نافذ نہیں کرسکتے تو پھر ہم کہیں بھی آئین کی بالادستی کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔‘

اکثر سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق آئین پر عمل درآمد کی اصل جنگ تو اسی پارلیمان کے اندر جاری ہے۔

آئین سے فرد کا کیا رشتہ ہے؟ آئین مملکت یا ریاست کے لیے کیوں ضروری ہے؟ یہ یادگار انہی تمام باتوں کا جواب دیتی ہے۔ ی

ہ یادگار دو اوراق پر مشتمل ایک کھلی کتاب کی مانند ہے جو یہ پیغام دیتی ہے کہ جمہوریت میں جتنی رائے اہم ہے اتنی ہی زیادہ اختلاف رائے بھی اہم ہے۔

ایک جانب پارلیمنٹ کا مکمل preamble یعنی ابتدائیہ لکھا ہے جو شہری سے آئین کا وعدہ کرتا ہے۔

سابق سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے اس ’یادگار دستور‘ کا افتتاح 29 فروری کو کیا۔ آئین کے منظور ہونے کے 50 سال بعد 10 اپریل سال 2023 کو اس کی سنگ بنیاد رکھی گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بظاہر سادہ دکھنے والے اس ڈیزائن میں تمام چیزیں آئین سے مطابقت رکھتی ہیں۔

یادگار دستور منصوبے پر کام کرنے والے قومی اسمبلی کے سپیشل سیکرٹری شمعون ہاشمی نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس حوالے سے بتایا کہ ’یہاں آئین بنیادی طور پر فرد کا ریاست سے رشتہ ہے۔ دراصل آئین بنیادی حقوق ہے باقی سارا آئین ان بنیادی حقوق پر عمل درآمد کروانے سے متعلق ہے۔‘

یہ ابتدائیہ فوجی صدر کی جانب سے لائے گئے آئین جہاں ’میں‘ کا ذکر تھا سے 1973 کے آئین میں ’میں‘ تک کا آئینی سفر طے کرتا ہے۔

ان اوراق کے ارد گرد اسلامی بیل ہے کیونکہ آئین کو اسلامی injunctions میں رکھا گیا ہے، یہ چوکھٹے اس کی عکاسی کرتا ہے۔ اوراق کے درمیان پاکستان کا جھنڈا نصب ہے۔

ساتھ ہی تین globes ریاست کے تین ستونوں legislature executive اور عدلیہ کی عکاسی کر رہے ہیں۔ ان اوراق کے درمیان میں کھڑے ہوں تو پارلیمنٹ ہاؤس نظر آتا ہے جو ان اوراق پر لکھے تمام حقوق عوام کو یقنی بناتی ہے۔

 سات سیڑھیاں آئین کے سات شیڈول کی نشاندہی کرتی ہیں جبکہ دو سو ستتر لائٹس اس کی دو سو ستتر دفعات کی عکاسی کرتی ہیں۔ چار پلانٹرز چاروں صوبوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

یہاں چیڑ کے درختوں کی تعداد 311 ہے کیونکہ آئین کے اندر operative articles کی تعداد 311 ہے۔ انہیں درختوں سے اس لیے تشبیح دی گئی ہے کیونکہ آئین زندہ دستاویز ہے۔ یادگار دستور آنے کے چھ راستے ہیں جو چار صوبوں، گلگت بلتستان اور کشمیر کی نمائندگی کرتے ہیں۔

شمعون ہاشمی نے بتایا کہ ’زمین پر پتھروں کا انتخاب بھی سفید اور کالا کیا گیا ہے کیونکہ آئین ابہام میں بات نہیں کرتا یعنی اس میں کوئی گرے ایریا نہیں ہے۔ کتاب کا رنگ ہرا رکھا گیا کیونکہ ہرا ہماری قوم کا رنگ ہے۔‘

ان اوراق کے پیچھے ان سرکاری افسران اور خصوصی طور پر انتھک محنت کرنے والے ورکر عیسیٰ خان کا نام بھی لکھا گیا ہے جو تقریبا 150 کلو کے پتھر ہوا میں لٹکاتے ہوئے توازن برقرار رکھتا تھا جو شمعون ہاشمی کے بقول انتہائی مشکل کام ہے۔

ان اوراق کے دائیں جانب آئیں تو ایک تکون بنائی جا رہی ہے جہاں ان تمام مزدوروں، یادگار دستور بنانے والے پارلیمانی رہنماؤں پر مشتمل کمیٹی اراکین اور 1973 کا آئین بنانے والی کمیٹی اراکین کے نام بھی لکھے جائیں گے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ