خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمد اعظم خان کی اچانک وفات کے بعد ان کے جان نشین کی نامزدگی آئین پاکستان میں کسی صوبے میں نگران چیف ایگزیکٹیو کی تقرری کے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے کی گئی۔
آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین میں صوبائی نگران وزیراعلیٰ کی وفات کی صورت میں اس عہدے پر دوسری نامزدگی کا طریقہ کار درج نہیں ہے۔
بیرسٹر علی گوہر درانی پشاور ہائی کورٹ کے وکیل ہیں اور سمجھتے ہیں کہ نئے نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی تقرری منتخب صوبائی اسمبلی کے خاتمے کے بعد نگران سیٹ اپ بنانے سے متعلق قانون کے مطابق کی گئی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں علی گوہر درانی کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان میں ایسی کوئی شق موجود نہیں جس میں واضح کیا گیا ہو کہ نگران وزیر اعلی کی انتقال کے بعد نئے وزیر اعلی کی نامزدگی کیسے کی جائے گی۔
صوبے کے سابق نگران وزیر اعلی محمد اعظم خان ہفتے کو اچانک وفات پا گئے تھے، جس کے بعد قانونی پیچیدگی پیدا ہوئی کہ ان کا جان نشین کیسے نامزد کیا جائے۔
گورنر خیبر پختونخوا غلام علی نے ہفتے کو ہی صوبائی ایڈوکیٹ جنرل سے رائے طلب کی اور انہوں نے سابق صوبائی وزیر اعلیٰ محمود خان اور قائد حزب اختلاف اکرم خان درانی سے مشورہ کر کے تین دن کے اندر نئے وزیراعلیٰ کے نام ہر اتفاق کا مشورہ دیا۔
گورنر غلام علی نے ایڈوکیٹ جنرل کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اتوار کی صبح اکرم خان درانی اور محمود خان سے مشورہ کیا اور تینوں کا جسٹس (ر) سید ارشد حسین کے نام پر اتفاق ہو گیا، جس کی گورنر نے منظوری بھی دے دی۔
جسٹس (ر) ارشد حسین مرحوم اعظم خان کی نگران کابینہ میں وزارت قانون کے وزیر تھے جبکہ 2019 سے 2022 تک گلگلت بلتستان کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔
نگران وزیراعلیٰ کے انتخاب کا آئینی طریقہ
بیرسٹر علی گوہر درانی کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 224 کے مطابق نگران وزیراعلیٰ کی تقرری منتخب اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے بعد سبکدوش ہونے والے وزیراعلیٰ اور قائد حذب اختلاف کرتے ہیں اور متفقہ نام گورنر کو بھیجا جاتا ہے۔
’وزیر اعلی اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان کسی ایک نام پر عدم اتفاق کی صورت میں سپیکر ایک تین رکنی پارلیمانی کمیٹی بناتے ہیں اور کمیٹی میں بھی عدم اتفاق کی صورت میں نگران وزیراعلیٰ کی نامزدگی کا فریضہ الیکشن کمیشن ادا کرنے گا۔‘
گوہر درانی کا کہنا تھا کہ جسٹس (ر) ارشد حسین کی تقرری اسی آرٹیکل 224 کے تحت اگرچہ مذکورہ آرٹیکل میں ایک مدت (Tenure) میں دو نگران وزرائےاعلیٰ یا وزرائےاعظم کی تقرریوں کی بات موجود نہیں ہے۔
تاہم ان کے خیال میں آئین اور قانون میں ایک منظر نامہ بیان کیا جاتا ہے اور اس لیے پہلے یا دوسرے نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کے لیے وہی طریقہ کار استعمال کیا جائے گا۔
’اس کے خلاف کوئی عدالت بھی جائے تو میں نہیں سمجھتا کہ عدالت سے ریلیف مل سکتا ہے۔‘
آئینی امور کے ماہر اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل شبیر حسین گگیانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں تحلیل شدہ اسمبلی کے قائدینِ ایوان و اختلاف کو اس صورت میں بلانے کو غیر قانونی قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 224(1)A کے تحت اسمبلی کی مدت پوری ہونے یا تحلیل ہونے کی صورت ان دو شخصیات سے مشاورت ممکن ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ اس طریقہ کار پر عمل درآمد مرحوم وزیراعلیٰ اعظم خان کی تقرری کے لیے ہو چکا ہے جبکہ دوسرے نگران وزیر اعلی کی تقرری کے حوالے سے آئین میں کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔
’وزیر اعلی کی انتقال کے بعد نئے وزیر اعلی کی تقرری کا طریقہ کار آئین کے آرٹیکل 135 میں موجود تھا جسے 1985 میں ختم کر دیا گیا ہے اور ابھی جو طریقہ کار ہے اس کے قریبی ترین طریقہ کار یہ ہے کہ یہ تقرری الیکشن کمیشن کے ذریعے ہو۔‘
سیاسی جماعتوں کا مؤقف
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما تیمور سلیم جھگڑا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ان کی دلچسپی عام انتخابات کے صاف اور شفاف ہونے میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری مرتبہ نگران وزیراعلیٰ کی نامزدگی آئین میں واضح نہیں ہے تو پہلے اس کی اعلیٰ عدالتوں وضاحت کروا کر نئی تعیناتی کرنا چاہیے تھی۔
تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ نئے نگران وزیراعلیٰ قانون کی پاسداری اور انتخابی عمل میں الیکشن قوانین کی خلاف ورزی کو روکنے میں کردار ادا کریں گے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر بیان میں کہا: ’جب وہ جعلی اسمبلی ہی 11 ماہ سے نہیں رہی تو اس کے وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کی کیا حیثیت ہے۔ یہ تقرری کسی بھی سٹیک ہولڈر کو قابل قبول نہیں ہوگی۔‘