پاکستان کی سینیٹ میں ہفتے کو ملک کے اندر سوشل میڈیا پر پابندی سے متعلق ایک قرارداد جمع کرائی گئی ہے، جس پر چار مارچ (پیر) کو بحث ہو گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی ٹکٹ پر سینیٹر بننے والے بہرامند تنگی نے اپنی قراد داد میں فیس بک، ٹک ٹاک، انسٹا گرام، یوٹیوب اور ایکس پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔
سینیٹ سیکریٹریٹ کے ایجنڈے میں قرارداد کو شامل کیا گیا ہے، جس پر ایوان بالا میں دو روز بعد بحث کرے گا۔
قرارداد میں کہا گیا کہ ’سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ملک کی نوجوان نسل پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
’سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہمارے مذہب، ثقافت کے خلاف اصولوں کو فروغ دینے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں اور عوام میں مذہب اور زبان پر نفرت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔‘
قرارداد میں ان پلیٹ فارمز پر ’پاکستان فوج کے خلاف منفی اور بدینتی پر مبنی پروپیگنڈا کے ذریعے ملکی مفادات کے خلاف استعمال ہونے‘ پر تشویش ظاہر کی گئی۔
’مفاد پرست یہ پلیٹ فارمز مختلف معاملات پر جھوٹی خبریں پھیلانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ پلیٹ فارمز جعلی قیادت کو فروغ دے کر نوجوان نسل کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ ’سینیٹ حکومت پاکستان کو تجویز کرتا ہے کہ فیس بک، ٹک ٹاک، انسٹا گرام، ایکس اور یوٹیوب پر پابندی لگائے۔
’یہ پابندی لگا کر نوجوان نسل کو ان کے منفی اور تباہ کن اثرات سے بچایا جائے۔‘
یہ قرارداد ایسے وقت میں جمع کروائی گئی جب ملک بھر میں ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کی سروسز کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔
گذشتہ برس پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں حکومت کو سوشل میڈیا ویب سائٹس کو بلاک کرنے کی سفارش کی تھی۔
انہوں نے حکومت کو متحدہ عرب امارات اور چین کی طرز پر سوشل میڈیا ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا کہا۔
بعد ازاں پی ٹی اے نے ایک وضاحتی بیان میں اس کی تردید کر دی تھی۔
سینیٹر بہرامند تنگی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں قرارداد کا دفاع کرتے ہوئے چند سوالات اٹھائے۔
وہ کہتے ہیں: ’کیا سوشل میڈیا پر جعلی قیادت کی ترویج کے ذریعے ملک کو تباہ کیا جانا، نوجوانوں کا ٹک ٹاک جیسی ویب سائٹس پر مستقبل کو برباد کرنا، فحاشی کی جانب جانا، افواج پاکستان سے متعلق غلط خبریں پھیلانا آزادی اظہار رائے ہے؟‘
انڈپینڈنٹ اردو کے سوال پر کہ کیا غلط خبروں اور دیگر مواد پر قابو پانے کے لیے قوانین کی موجودگی کے باوجود سوشل میڈیا ویب سائٹس کو بلاک کرنا کیا درست ہوگا؟
اس پر سینیٹر بہرامند تنگی نے کہا: ’سائبر کرائم کرنے پر کبھی سزا نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے ملک میں قوانین ہیں لیکن ان پر عمل درآمد صفر ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک میں 95 فیصد افراد ان ویب سائٹس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینیٹر بہرامند تنگی نے کہا ’میڈیا سے منسلک افراد سیاسی جماعتوں کے لیے کھل کر کام کرتے ہیں اور خود کو صحافی بھی کہتے ہیں۔
’یہ شرم کی بات ہے کیونکہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ان کا پروپیگنڈا چلتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اگر 60 فیصد افراد بھی ان ویب سائٹس کا درست استعمال کرتے تو ٹھیک تھا لیکن ملک میں اتنے زیادہ افراد اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
’یہ ممکن ہے کہ ایوان اس معاملے پر مکمل طور پر انکار کر دے لیکن بطور پاکستانی اس قرارداد کو اپنے ملک، اداروں اور بچوں کے لیے جمع کروانا میرا حق ہے۔‘
’سینیٹر تنگی کا پی پی پی سے کوئی تعلق نہیں‘
پی پی پی کے سیکریٹری جنرل نیر بخاری نے ایک بیان میں واضح کیا کہ سینیٹر بہرامند تنگی اور ان کی قرارداد سے پارٹی کا کوئی تعلق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹر بہرامند تنگی پارٹی کا نام استعمال نہ کریں کیونکہ پیپلز پارٹی ان کی بنیادی رکنیت ختم کر چکی۔
’سینیٹر بہرامند تنگی کو پارٹی پالیسی سے انحراف پر اظہار وجوہ کا نوٹس دیا گیا تھا، جس کا وہ جواب دینے میں ناکام رہے۔
بیان کے مطابق پیپلزپارٹی چارسدہ کے صدر نے سینیٹر تنگی کی بنیادی رکنیت منسوخ کر دی تھی۔
سینیٹر تنگی 11 مارچ کو سینیٹ کی رکنیت سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔
’سوشل میڈیا پر پابندی غیر آئینی‘
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی چیئر پرسن نگہت داد نے اس حوالے سے کہا ’اس طرح کی قرارداد آئین پاکستان کے آرٹیکل 19، جو آزادی اظہار رائے کے حق سے متعلق ہے، کا مذاق اڑاتی ہے۔
’یہ آئین کا مذاق بنانے کے مترادف ہے کیونکہ یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ دنیا پلیٹ فارمز پر پابندی لگانے سے بہت آگے جا چکی، وہ آن لائن نقصان دہ مواد سے نمٹنے کے لیے دوسرے جدید طریقے تلاش کر رہے ہیں۔
’یہ اس ملک کے عوام کی بدقسمتی ہے کہ یہاں کے قانون ساز ایسی قراردادیں پیش کر رہے ہیں جس سے ہمارے حقوق کی پامالی ہو رہی ہے بلکہ دنیا میں اس ملک میں رہنے والوں کا مذاق بنا رہے ہیں۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ان دنوں سینیٹ میں ایسی قرارداد کون پیش کر سکتا ہے؟
ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والے ادارے ’بولو بھی‘ کی شریک بانی فریحہ عزیز نے کہا ہر مسئلے کا حل ’بندش‘ کو سمجھنا تنگ نظری ہے، مسائل کو مناسب طریقے سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کسی بھی پلیٹ فارم پر مکمل طور پر پابندی لگانا غیر آئینی ہے اور ان کو اسی بنیاد پر چیلنج بھی کیا جاتا رہا ہے اور عدالتوں نے بھی مانا کہ یہ عمل غیر آئینی ہے۔
انہوں نے پیکا قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’سیکشن 37 پر سول سوسائٹی کو شدید تحفظات ہیں کہ اس قانون کو نہیں ہونا چاہیے، حتیٰ کہ یہ قانون بھی ویب سائٹس کی مکمل بندش کا اختیار نہیں دیتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے blanket ban لگا بھی دیے جاتے ہیں۔‘
فریحہ نے کہا ماضی میں اس طرح کی قرارداد پارلیمان اور درخواستیں عدالتوں میں جاتی رہی ہیں۔
’نہ یہ پہلی بار ہو رہا ہے اور نہ آخری بار ہوگا۔ چند افراد یا ادارے اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتے کہ تمام افراد کیا دیکھ سکتے ہیں اور کیا نہیں۔
’یہ پلیٹ فارم تعلیم اور آمدنی کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ایوان میں اس کی مخالفت کی جانی چاہیے جو بہت ضروری ہے۔‘
گذشتہ دنوں میں ایکس کی بندش کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جس کے بعد عدالت نے اس کی بلاتعطل فراہمی کا حکم دیا تھا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔