ایک افغان تجارتی وفد نے ایران کی جنوبی بندرگاہ چابہار میں 35 ملین ڈالر کے تعمیراتی اور سرمایہ کاری کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔
نشریاتی ادارے ایران انٹرنیشنل کے مطابق افغانستان میں ایران کے سفیر حسن کاظمی قمی نے کہا کہ ’35 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے تجارتی، رہائشی اور انتظامی سمیت مختلف منصوبوں پر کام شروع ہو گیا ہے۔‘
یہ اقدام افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے ایران کے حالیہ اقدامات کے پس منظر میں سامنے آیا جس میں بڑے پیمانے پر ایران سے افغان شہریوں کی بے دخلی کی اطلاع سامنے آئی تھیں۔
ایسی خبریں بھی سامنے آ رہی تھیں کہ تازہ ترین اقدام سے ایران میں موجود بہت سے غیر قانونی افغان کارکنان کو ایک نظام کے تحت وہاں رہنے کی اجازت ہوگی۔
حال ہی میں سرحدی کشیدگی کے دوران دسمبر میں افغانوں کے 16 ایرانی صوبوں میں رہنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
خاص طور پر تعمیراتی شعبے میں افغان کارکنوں کی آمد کو ایران کے اندر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
افغان شہریوں پر ایران میں اقتصادی بحران کے دوران ایرانیوں سے ملازمتیں چھیننے کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
ایرانی حکام نے تخمینہ لگایا ہے کہ ایران میں مستند غیر ملکی شہریوں کی تعداد تقریباً 40 لاکھ ہے، جن کا ایک بڑا حصہ نقل مکانی کرنے والوں کا ہے۔
2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ایران نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے سے گریز کیا۔
تہران میں افغانستان کا سفارت خانہ طالبان کے نمائندوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آسٹریلیا میں قائم گریک سٹی ٹائمز کے مطابق یہ سرمایہ کاری ایک افغان وفد کے ایران کے دورے کے بعد منظر عام پر آئی، جس میں دونوں ممالک کے درمیان گہرے اقتصادی تعاون کو اجاگر کیا گیا تھا۔
افغان وفد کے دورے کا مقصد چابہار سپیشل اکنامک زون کے اندر تعمیراتی منصوبے پر توجہ مرکوز کرنا تھا جس میں 25 منزلہ بلند و بالا رہائشی کمپلیکس کی تعیر بھی شامل ہے۔
اس اقدام کو افغانستان کے لیے ایک اہم اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس کا مقصد بین الاقوامی پانیوں تک اس کی رسائی کو بہتر بنانا اور اس کی تجارتی صلاحیتوں کو بڑھانا ہے۔
افغانستان اور ایران کے درمیان یہ سرمایہ کاری ایسے وقت میں کی گئی جب دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف سرحدی تنازعات اور پانی کے حقوق جیسے معاملات پر کشیدگی تھی بلکہ ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ ہیں۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات بھی کچھ عرصے سے سرد مہری کا شکار ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی راستے آئے دن مختلف وجوہات کی بنا پر بند رہتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں جانب کی تجارتی برادری کو شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان نے گذشتہ برس ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے تھے۔
پاکستان کا کہنا تھا کہ اس نے اس کے ثبوت افغان طالبان کو فراہم کیے تھے اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا جو کہ پاکستان کے مطابق افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے تھے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اس کی کوششوں کے باوجود ٹی ٹی پی کے خلاف افغانستان میں کارروائی نہیں کی گئی اور پاکستان میں ’دہشت گردی‘ کے واقعات میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے واقعات سامنے آتے رہے جس کے بعد پاکستان نے غیر قانونی طور پر پاکستان میں رہائش پذیر افغان شہریوں کو واپس بھیجنا شروع کر دیا۔
اس علاقائی تناؤ کے باوجود، چابہار میں سرمایہ کاری کو افغانستان کی جانب سے اپنی تجارت کے لیے متبادل راستے کو محفوظ بنانے اور اپنی معیشت کو تقویت دینے کے لیے ایک اسٹریٹیجک کوشش کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔
ایران کی چابہار بندرگاہ افغانستان کے لیے بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی کے لیے ایک اہم گیٹ وے پیش کرتی ہے، جس سے اس کے پاکستان سمیت قریبی پڑوسیوں پر مکمل انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم المانیٹر کے تجزیے میں کہا گیا کہ اس سرمایہ کاری سے خشکی سے گھرے ملک افغانستان ایرانی بندرگاہ کے ذریعے بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی مل جائے گی۔
ایران اور افغانستان کی سرحد پر پر واقع، چابہار ایران کی واحد بندرگاہ ہے جو بحر ہند تک براہ راست رسائی رکھتی ہے اور چابہار، زاہدان، سرخس ریلوے کے ذریعے زمینی راستے سے افغانستان سے جڑ سکتی ہے۔
ایران اور افغانستان کو بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا ہے، دونوں ممالک اقتصادی تعلقات کو ایک نئی سطح پر لے جانے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔
ایک آزاد محقق اور ایرانی تجزیہ کار رابرٹو نیکیا نے المانیٹر کو بتایا کہ چابہار بندرگاہ میں طالبان کی دلچسپی حیران کن نہیں ہے کیوں کہ افغان نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر نے گذشتہ برس نومبر میں تہران کا دورہ کیا تھا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔