بائیڈن اور ٹرمپ مدمقابل: اپنی جماعتوں کی صدارتی نامزدگی حاصل کر لی

نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج سے قطع نظر جو بائیڈن یا ڈونلڈ ٹرمپ 2025 میں حلف برداری کے دن امریکی صدر کا حلف اٹھانے والے سب سے عمر رسیدہ رہنما ہوں گے۔

17 فروری 2024 کو بنائے گئے اس کولاج میں یکم جون 2023 کو امریکی صدر جو بائیڈن کو واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے جنوبی لان سے ہاتھ لہراتے ہوئے اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 12 جنوری 2021 کو واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے باہر ہاتھ لہراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی)

جو بائیڈن نے جارجیا پرائمری جیتنے کے بعد صدارت کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی حاصل کر لی ہے۔

پیچ سٹیٹ کہلائی جانے والی ریاست جارجیا میں صدر کی کامیابی کا مطلب ہے کہ انہوں نے نامزدگی کے لیے درکار 1968 ڈیلگیٹس کی حمایت حاصل کر لی ہے اور اس سال اگست میں شکاگو میں ہونے والے ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن میں انہیں باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا جائے گا۔

دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی منگل کو جارجیا میں ایک اور کامیابی حاصل کی ہے جس سے وہ رپبلکن نامزدگی حاصل کرنے اور جو بائیڈن کے ساتھ 2020 کے انتخابات میں دوبارہ مقابلے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈونلڈ ٹرمپ کی واحد مد مقابل اقوام متحدہ کی سابق سفیر نکی ہیلی تھیں، جو رواں ماہ کے اوائل میں سپر منگل کو بڑی شکست کے بعد رپبلکن نامزدگی کی دوڑ سے باہر ہو گئی تھیں۔

بعد ازاں دونوں مردوں (بائیڈن اور ٹرمپ) نے مسی سپی پرائمری میں کامیابی حاصل کی جبکہ ٹرمپ پھر بھی رپبلکن نامزدگی حاصل کرنے سے رہ گئے تھے۔

بائیڈن، جنہوں نے 37 سال پہلے صدر کے عہدے کے لیے اپنی پہلی کوشش کی تھی، کو 81 سال کی عمر میں دوبارہ انتخاب لڑنے کی دوڑ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے کسی سنجیدہ حریف کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

اس کے باوجود کہ ان کی مقبولیت کم تھی اور ان کی صدارت کے لیے رائے دہندگان کے جوش و خروش میں کمی رہی، جس کی ایک وجہ ان کی عمر تھی۔

ایسوسی ایٹڈ پریس این او آر سی سینٹر فار پبلک افیئرز ریسرچ کے ایک حالیہ سروے کے مطابق امریکہ میں صرف 38 فیصد بالغوں کا خیال ہے کہ بائیڈن بحیثیت اچھا کام کر رہے ہیں، جب کہ 61 فیصد نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔

پہلے ہی سب سے عمر رسیدہ امریکی صدر جو بائیڈن اگر دوسری مدت مکمل کرلیتے ہیں تو وہ 86 سال کے ہو جائیں گے۔

اب باضابطہ طور پر نومبر 2020 کی طرح دوبارہ انتخابات کے لیے میدان تیار ہو گیا ہے، کیوں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مسٹر بائیڈن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے چند گھنٹوں بعد رپبلکن نامزدگی حاصل کر لی ہے۔

سابق صدر نے جارجیا، مسی سپی اور واشنگٹن میں رپبلکن پرائمری انتخابات میں کامیابی حاصل کی جبکہ منگل کی رات ہوائی میں رپبلکن کاکس نے 1215 مندوبین کی حد عبور کر لی۔

دریں اثنا صدر ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر اپنی پارٹی کی نمائندگی کرنا ’میرا بہت بڑا اعزاز‘ قرار دیا۔

نومبر کے نتائج سے قطع نظر، وہ یا ڈونلڈ ٹرمپ 2025 میں حلف برداری کے دن حلف اٹھانے والے سب سے عمر رسیدہ رہنما ہوں گے۔

63 فیصد کا کہنا ہے کہ انہیں صدر کے طور پر مؤثر طریقے سے خدمات انجام دینے کے لیے بائیڈن کی ذہنی صلاحیت پر زیادہ اعتماد نہیں جبکہ 57 فیصد نے ٹرمپ کے بارے میں بھی یہی کہا۔

نامزدگی حاصل کرنے سے چند گھنٹے قبل صدر کو ایک خصوصی وکیل کی طرف سے کئی گھنٹوں تک سوالات کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے صدر کی طرف سے خفیہ دستاویزات کے غلط استعمال کی چھان بین کی اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ اس پر جزوی طور پر مقدمہ نہیں چلا سکتے کیونکہ انہیں یادداشت کے مسائل ہیں۔

پراسیکیوٹر رابرٹ ہر نے اپنی رپورٹ میں بائیڈن کو ’ایک ہمدرد، خیرخواہ، کمزور یادداشت کے حامل بزرگ شخص‘ کے طور پر پیش کیا۔

اپنے سٹیٹ آف دی یونین خطاب اور انتخابی مہم کے ایک نئے اشتہار میں جو بائیڈن نے مزاح کے تڑکے کے ساتھ تجربے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔

انہوں نے گذشتہ ہفتے کانگریس کو بتایا تھا: ’میں جانتا ہوں کہ میں شاید ایسا نہیں لگ سکتا، لیکن میں کافی عرصے سے ایسا ہوں۔ جب آپ میری عمر کے ہو جاتے ہیں، تو کچھ چیزیں پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہو جاتی ہیں۔‘

بائیڈن کی انتخابی مہم کی حکمت عملی مسلسل طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی مبینہ خامیوں کو اجاگر کرنے کی رہی ہے جبکہ سابق صدر کی حکمت عملی سیاسی مخالفین پر حملے کرنے کے اپنے سفاکانہ اور ذاتی انداز کو برقرار رکھنے کی رہی ہے۔

جو بائیڈن نے یوکرین کے لیے اپنی حمایت اور نیٹو کو وسعت دینے کے کام کو اندرون و بیرون ملک آزادی کی جنگ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ اس کا موازنہ ٹرمپ سے کرتے ہیں جنہوں نے روسی صدر ولادی میر پوتن کی تعریف کی تھی اور اشارہ کیا تھا کہ وہ روس کو نیٹو کے ان ممالک پر حملہ کرنے کا کہیں گے، جن کے بارے میں ٹرمپ کا خیال ہے کہ وہ اتحاد کے لیے اپنی مالی یا دفاعی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے۔

ان کے اتحادی بھی پرامید ہیں کہ حماس کے ساتھ اسرائیل کی جنگ کے خلاف احتجاجی ووٹنگ مہم، جسے کچھ ریاستوں میں رائے دہندگان کی جانب سے ’اَن کمیٹڈ‘ ووٹوں کے اندراج کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے – نومبر تک ختم ہو جائے گی۔

انتخابی مہم کو امید ہے کہ اس وقت تک، لبرلز اور سات اکتوبر کے حملوں کے بعد اسرائیل کی فوجی کارروائی میں 30 ہزار سے زیادہ اموات پر غم و غصے کے شکار لوگوں کو بائیڈن اور ٹرمپ میں سے کسی ایک کو ووٹ دینا ہی پڑے گا۔

2012 میں، اس وقت کے صدر براک اوباما کو بھی غیر متقابل پرائمریوں، خاص طور پر قدامت پسند ریاستوں سے متعدد ’ ان کمیٹڈ‘ ڈیلگیٹس کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ