جب شامیں خنک ہونا شروع ہو جاتی ہیں، جب ہوا اپنے ٹھنڈے ہاتھ میرے گالوں سے لگا کر موسم کا پتہ دیتی ہے تو میرے اندر ایک الارم بجتا ہے جو یاد کراتا ہے کہ کچھ اپنوں سے ملنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ میری یاد میں ایسا کم از کم 24 سال سے ہو رہا ہے۔
موسم کی انگڑائی نوید ہوتی ہے کوہِ قاف سے آنے والے ان ننھے مہمانوں کی آمد کی جو مجھ سے ملنے برفیلی وادیوں، تند طوفانوں اور مشکل علاقوں کی مسافت کو چیر کر ساڑھے چار ہزار کلومیٹر کا راستہ طے کر کے میرے وطن کے پانیوں میں آ پہنچتے ہیں۔
میں سائبیریا سے آنے والے اپنے دوستوں کا ذکر کر رہا ہوں جن سے میرا ایک اچھوتا رشتہ ہے۔ جس طرح مدتوں سے ان کی نسلوں میں سائبیریا سے وادی سون کی جھیل اوچھالی کے نیلے پانیوں میں اترنا ہے، اسی طرح صدیوں سے میرے خون میں ہے کہ جونہی ہوا کا مزاج تبدیل ہوتا ہے، جھیل کے کنارے واقع میرے گاؤں چٹہ کی دھوپ سردی سے ہارنے لگتی ہے، جھیل کا پانی سرد ہو کر نیلا ہونے لگتا ہے اور قاف سے ٹولیوں کی شکل میں آنے والے مہمان وادی سون کی فضاؤں میں اپنی آمد کے نعرے بلند کرتے ہیں تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ وہ آ گئے ہیں اور میں بے خود ہو کر انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے جھیل کا رخ کرتا ہوں۔
’گرین روٹ‘ وہ راستہ ہے جس سے یہ ننھے مہمان یعنی ہجرت کرنے والے پرندے آتے ہیں، آپ کبھی گوگل سے اس راستے کے بارے میں دریافت کیجیے، یقیناً آپ کے دل میں بھی ان کی وفا کے لیے احترام دگنا ہو جائے گا۔
اگر آپ جھیل اوچھالی کا چاندنی رات میں نظارہ کریں تو آپ کو یقین ہو جائے یہی ہیں وہ قاف سے آنے والی پریاں جو جھیل میں سیف الملوک اور بدیع الجمال کی مہندی رچانے آئی ہیں۔ جب چاند دسمبر کی یخ راتوں میں جھیل اوچھالی کے ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈبو کر بیٹھا ہوتا ہے تو ایسے میں ان ٹولیوں کی آمد اور ان کے پروں کی موسیقی اور پھر ان کے حلق سے نکلتے خوشی اور سرشاری کے گیت آپ کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ سب دیکھنے کے لیے عربی النسل بزرگ حافظ محمد الیاس کے آباد کردہ گاؤں چٹہ کی مسجد موزوں ترین مقام ہے جو گاؤں کے بالکل اوپر ایک تاج کی طرح براجمان ہے اور رات بھر ان ننھے مہمانوں کی آمد کو چاند کی لو میں جھانکتی رہتی ہے۔
اگر آپ اسلام آباد میں ہیں تو یہ سحر انگیز مناظر آپ سے صرف 290 کلو میٹر دور ہیں، البتہ ترقیاتی کام نہ ہونے کے باعث رستہ کٹھن ہے۔
ستم دیکھیے کہ سائبیریا کے باوفا مہمان تو ساڑھے چار ہزار کلومیٹر کا سفر کر کے جھیل اوچھالی تک آ جاتے ہیں لیکن وادی سون کے منتخب قانون ساز انتخابات کے بعد 290 کلومیٹر کا سفر کر کے علاقے کی حالات زار بدلنے کے لیے کبھی ادھر کا رخ کرنا گوارا نہیں کرتے۔ نتیجتاً سڑکیں اتنے گہرے گڑھوں سے مزین ہیں کہ کوئی ایم پی اے یا ایم این اے اگر بھول کر ادھر کا رخ کر بھی بیٹھے تو شاید اپنی گاڑی سمیت ہی شرم سے ان میں گر کر ڈوب مرے۔
جھیل اوچھالی ضلع خوشاب کی ایک خوبصورت وادی میں واقع ہے، پانیوں کی اس سر زمین کو وادی سون کہتے ہیں جس میں کھبیکی، جاہلر اور اوچھالی سمیت کئی پانی کے ذخائر اور جھیلیں ہیں اور ورلڈ وائلڈ لائف نے اسے ’اوچھالی ویٹ لینڈز کمپلیکس‘ کا نام دے رکھا ہے۔ پوری وادی سون کی سیر کے لیے تو کوئی اور دن ہی مخصوص کرنا ہو گا کہ یہ علاقہ سرسری ذکر سے راقم آپ کو واضح نہیں کر پائے گا۔ آج تو میرے اس وطن کی سب سے خوبصورت جھیل اوچھالی اور سائبیریا کے ان ننھے مہمانوں کا ذکر کرنا ہے جو اب ہم سے روٹھ گئے ہیں۔
جب اپنے ہی اپنوں پر بندوقیں تان لیں تو نتیجہ تباہی ہوتا ہے، جب گھر میں سکون نہ رہے تو باسی کہیں اور ہی اپنی منزل تلاش کرتے ہیں۔ ایسا ہی ہوا ہے ان سائبیریا، منگولیا اور وسط ایشیائی ممالک سے آنے والے 45 سے زیادہ اقسام کے پرندوں کے ساتھ جو آ کر یہاں اپنی نسل کو بڑھاتے ہیں لیکن ہمیں تو گھر کی فرسٹریشن کو ختم کرنے اور دنیا والوں پر اپنے غصے کو اتارنے کے لیے ’ٹھاہ‘ کی آواز تسکین دیتی ہے، سو جب یہ مہمان اپنی آمد سے نیلی جھیل کو کالی چادر اوڑھا لیتے ہیں تو حضرت انسان کی رال ٹپک آتی ہے اور یہ ننھے مہمان آنسو بہاتے کنارے سے واپس جھیل کے درمیان تک یہ سوچتے چلے جاتے ہیں کہ کیا ہم قاف سے ایک پاؤ کی ہنڈیا کا گوشت بننے کے لیے آئے تھے؟ کیا ان شکاریوں کو ہم پر ترس بھی نہیں آتا؟
پھر بھی ان کی وفا کہ یہ ہم بے وفا لوگوں کی دھرتی پر آن ٹکتے ہیں لیکن ان میں سے بعض بہت حساس واقع ہوئے ہیں، گاؤں چٹہ کے بڑے بوڑھوں اور جوانوں نے پچھلے دس سال سے اسے نہیں دیکھا۔
میں نے بھی بچپن سے لے کر اب تک اس کی صرف ایک جھلک ہی دیکھی ہے جب وہ جوڑا اپنی زندگی سے لطف اٹھانے کے عروج پر تھا، دنیا والے اس نایاب ترین ہجرت کرنے والے سائبیریا کے پرندے کو سفید سر والی بطخ (White Headed Duck) کہتے ہیں، یہ خاص پرندے ہم سے روٹھ گئے ہیں، وہ اب ضلع خوشاب کی 780 مربع کلومیٹر پر پھیلی اس خوبصورت وادی کے پانیوں میں اترنے سے انکار کر چکے ہیں، اب وہ اپنے دھوپ میں چمکتے سفید سروں کو سرشاری سے اٹھا کر جھیل کے مغرب میں واقع تقریباً پانچ ہزار فٹ بلند سکیسر کی چوٹی کو نہیں دیکھتے، یہ نظارہ اب مفقود ہو چکا ہے۔
یہ سفید سر والے مہمان صرف ہم سے ہی نہیں باقی دنیا والوں سے بھی خائف ہیں اور اب ترک دنیا کرنے والے پرندوں کی اولین فہرستوں میں جا بیٹھے ہیں، میں یہ بین اس لیے کر رہا ہوں کہ یہاں آ کے یہ نایاب مہمان اپنی نسل بڑھاتے تھے لیکن وادی سون کی نئی نسل اور نابلد حکمرانوں کے لیے شاید ان کی کوئی اہمیت نہ تھی اور وہ پرندے ٹھہرے حساس۔ اب میں جھیل کنارے واقع اپنے گھر سے بس خالی نگاہوں سے پورا موسم سرما ان کا متلاشی رہتا ہوں۔
گاؤں چٹہ کے بالکل سامنے واقع اس جھیل کے مہمانوں کو آپ عام نہ سمجھیں، یہاں سے ہی اندازہ لگائیں کہ 1971 میں فرید الدین عطار کی سر زمین سے ان کی حفاظت کے لیے رامسر کنونشن برپا ہوا، شاید نیشاپور کے فرید الدین کے ان مشہور پرندو ں میں سے یہاں سے کوئی گیا ہو گا جن کا ذکر ان کی مشہور زمانہ تصنیف منطق الطیر میں ہے، اور شاید انہی میں سے کسی ایک نے سندیسہ بھیجا ہوگا کہ اے ہزاروں میل سے ہجرت کر کے آنے والے با وفا دوستو تم خاص ہو، دنیا مانتی ہے کہ اب تم کو کوئی نہیں مارے گا۔
لیکن رامسر کنونشن کو کون جانتا ہے، جھیل کے پانیوں کو چیرتی اور ان سفید پوش اور سیاہ رو مہمانوں کے دلوں کو دہلاتی بھدی آواز والے انجن سے لیس اس کشتی کی آواز بھلا کہاں وائلڈ لائف فنڈ اور رامسر کنونشن کے کرتے دھرتوں کے دفاتر تک جاتی ہے۔ یقین مانیں یہ مہمان تو بس اب ہزاروں سال پرانی اپنی رسم نبھانے ہی آ جاتے ہیں ورنہ بارود کی بو، جھیل کے عین وسط میں دل دہلاتی کشتیوں کا شور، دن بہ بدن آلودہ ہوتا ماحول اور سیاحوں کے پھینکے پلاسٹک سے بھری جھیل بھلا کس کو اچھی لگتی ہے۔
اب کی بار یہ مہمان آئے تو میں ان کو نئی خبر سنانے والوں ہوں، حکومت نے وادی سون میں ماحولیاتی سیاحت (Eco-Toursim) کا منصوبہ سوچ رکھا ہے اور اب اس پر کام بھی شروع ہوا چاہتا ہے۔ ابھی پچھلے مہینے کی بات ہے جب میں گاؤں گیا اور چودھویں رات میں جھیل کے پانی کے درمیان تک جاتی شاہراہ پر جب نظارے سے لطف اندوز ہونے پہنچا تو پانی میں اترے چاند کے کندھوں پر درجن سے زیادہ لیمپ پوسٹ براجمان تھے جن کے ننھے قمقمے مجھے اپنی تنصیب کی نوید دے رہے تھے۔
یہ سب تو وہ قاف سے آئے مہمان دیکھ لیں گے مگر میں ان کو یہ بتانے والا ہوں کہ اب شاید مزید حساس دوستوں کے لیے یہاں کبھی نہ لوٹنے کا وقت آن پہنچا ہے۔
اب اس پراجیکٹ کے تحت ہوں گی یہاں پر پانیوں کو چیرتی تیز سے تیز کشتیاں، ریستوران اور گہماگہمی بھرے پوائنٹس جو ان مہمانوں کی طبیعت کے عین خلاف ہے۔ لیکن یہ تو میری کج فہمی ہو گی کیونکہ حکومتیں تو باقاعدہ پلاننگ اور بصیرت سے چلتی ہیں یہ سب کرنے کا سوچتے ہوئے ارباب اختیار نے ان ننھے مہمانوں کا خیال ضرور کیا ہو گا۔
میں آج کل اکثر ایک خواب دیکھتا ہوں، کیا دیکھتا ہوں کہ سفید سر والے قاف کے مہمان پھر سے لوٹ آئے ہیں اور سحری کے گیت کے شور سے گاؤں والوں کو صبح صادق کی خبر دے کر اٹھا رہے ہیں، اور پھر طلوع آفتاب کے وقت دن کے آغاز کے لیے پر سکھا رہے اور خوش گپیوں میں مصروف ہیں، سورج کی سنہری کرنیں ان کے سفید اور کالے مخملی پروں سے اٹے جسموں کو نا قابل تعریف چمک سے مزین کر رہی ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے ان کی اور گاؤں والوں کی صلح ہو گئی ہے۔
کاش۔۔۔۔ یہ خواب سچ ہو جائے۔