پشاور ہائی کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے لیے دائر درخواست پر سماعت بدھ کو جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں عدالت کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔
لارجر بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس اعجاز انور، جسٹس ایس ایم عتیق شاہ، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس سید ارشد علی شامل تھے۔
عدالت میں دوران سماعت فریقین کی جانب سے دلائل دیے گئے جن میں اٹارنی جنرل، الیکشن کمیشن کے وکیل، درخواست گزار کے وکیل اور دیگر وکلا شامل تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے نیر بخاری، فیصل کریم کنڈی اور فاروق ایچ نائک، سنی اتحاد کونسل کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر اور بابر اعوان کو پیش ہونا تھا لیکن وہ نہیں پہنچے جبکہ قاضی انور ایڈوکیٹ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے پیش ہوئے۔
درخواست گزار کے وکیل قاضی انور نے عدالت کو بتایا کہ انتخابی نشان کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا اور سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو کاالعدم کیا اور ہم سے نشان واپس لے لیا گیا۔
’نشان واپس لیے جانے کے بعد ہمارے سارے امیدواروں نے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی کے بعد سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو گئے۔‘
اس پر جسٹس اشتیاق ابراہیم نے پوچھا کہ کیا سنی اتحاد کونسل کا کوئی امیدوار انتخابات میں کامیاب ہوا ہے تو جواب میں قاضی انور نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوا۔
جس پر عدالت کےجج سید ارشد علی نے بتایا کہ ان کا چیئرمین بھی خود آزاد حیثیت سے انتخابات میں لڑ کر کامیاب ہوئے ہیں۔
عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو بتایا کہ آپ نے 21 فروری کو مخصوص نشستوں کے لیے فہرست دی ہے جس پر درخواست گزار نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے بعد فہرست جمع کرائی گئی۔
اس پر جسٹس اشتیاق ابراہیم نے بتایا کہ آئین میں جو مخصوص نشستیں ہیں، ان کو خالی چھوڑا جائے تو پھر پارلیمنٹ مکمل نہیں ہو گی۔
درخواست گزار کے وکیل قاضی انور نے بتایا کہ آئین کے مطابق مخصوص نشستیں دوسری سیاسی جماعتوں کو نہیں دی جا سکتیں اور آئندہ انتخابات تک خالی رہیں گی۔
پی ٹی آئی کے بیرسٹر علی ظفر کے عدالت لیٹ پہنچنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ ’بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ آج لارجر بینچ ہے اور وہ ابھی تک نہیں پہنچے۔‘
انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے پاس ہزاروں کیسز ہیں اور آج لارجر بینچ کی وجہ سے صرف ایک ڈویژن بینچ کام کر رہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور آئین کہتا ہے کہ جب ایک پارٹی کی پارلیمنٹ میں سیٹ ہو تو وہ ہی پارلیمانی پارٹی ہے۔
اس پر عدالت نے کہا کہ اگر آٹھ نو سیاسی جماعتیں ملتی ہیں اور ایک اتحاد بناتی ہے جس نے الیکشن میں حصہ نہ لیا ہو تو پھر کیا ہو گا۔
عدالت نے مزید کہا کہ جب الیکشن ایکٹ 2017 پاس ہو رہا تھا تو اس وقت کیا اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا کہ ایسی صورتحال میں کیا ہو گا۔
جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضی بھی عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر انتخابات میں ایک شخص کے مقابلے میں کسی نے کاغذات جمع نہیں کرائے تو الیکشن کے بغیر بھی وہ شخص جیت جاتا ہے۔
سنی اتحاد کونسل نے تو مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ دی ہی نہیں جس پر عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بلے کیس میں مخصوص نشست کا سوال آیا تھا۔
کامران مرتضی نے کہا کہ اس وقت بیرسٹر علی ظفر کے سامنے بات ہوئی عدالت نے اس معاملے پر کوئی ریلیف نہیں دیا۔
عدالت نے کامران مرتضی کو کہا کہ آپ لوگوں (جے یو آئی )نے بھی تو ان کے لیے دروازے کھولے تھے جس پر وکیل نے کہا کہ ’ہماری ان سے اس پر بات نہیں ہوئی تھی۔‘
عدالت نے کامران مرتضی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو تو یہ اعتراض ہے کہ آپ نے (مخصوص نشستیں) مانگی ہی نہیں اور ہمیں دے دی گئی ہیں۔
جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب مال غنیمت تقسم ہو تا ہے تو جو بچ جائے وہ پھر انہی میں واپس تقسیم ہوتا ہے اور اسی پر عدالت میں قہقے لگ گئے۔
عدالت نے کیس کی سماعت کل (جمعرات) نو بجے تک ملتوی کر دی۔