روس میں صدارتی الیکشن، کیا پوتن کی جیت یقینی ہے؟

روس کے صدارتی الیکشن میں عام طور پر سات سے آٹھ کروڑ افراد ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔ 2018 میں 67.5 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔

15 مارچ 2024 کو ماسکو میں ہونے والے روس کے صدارتی انتخابات میں ایک فوجی اہلکار اپنا ووٹ ڈال رہا ہے۔ (نتالیا کولیسنیکووا/ اے ایف پی)

روس میں 15 سے 17 مارچ تک صدارتی انتخاب ہو رہا ہے جس میں کوئی غیر متوقع رکاوٹ دکھائی نہیں دے رہی اور صدر ولادی میر پوتن کی کامیابی یقینی ہے۔

اس طرح جوزف سٹالن کے بعد سب سے طویل عرصے تک حکومت کرنے والے کریملن کے سربراہ کو مزید چھ سال کے لیے اقتدار مل جائے گا۔

یہ کیسے ہو گا؟

صدارتی انتخاب کے نتائج  جلد ہی سامنے آ جائیں گے اور فاتح امیدوار مئی میں ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔

یوکرین کے وہ حصے جن کو روس اپنے نئے علاقے قرار دیتا ہے وہاں بھی ووٹ ڈالے جائیں گے۔ یہ علاقے اب روسی افواج کے کنٹرول میں ہیں اور وہاں روسی قانون نافذ ہے۔

یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک وہ الحاق شدہ علاقوں سے ہر آخری روسی فوجی کو باہر نہیں نکال دیتا۔

روسی صدارتی الیکشن میں پہلی بار ریموٹ آن لائن ووٹنگ سسٹم دستیاب ہو گا۔

کتنے ووٹر ہیں؟

صدارتی انتخاب میں 11.23 کروڑ افراد کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے۔ بیرون ملک مزید 19 لاکھ افراد ووٹ ڈال سکیں گے جب کہ خلائی جہازوں کے لیے لانچنگ سائٹ بیکونور میں 12000 افراد کو ووٹ دینے کا حق ہو گا۔ روس نے قازقستان سے یہ سائٹ کرائے پر لے رکھی ہے۔ روس کے صدارتی الیکشن میں عام طور پر سات سے آٹھ کروڑ ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔ 2018 میں 67.5 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔

کون الیکشن لڑ رہا ہے؟

پوتن کا مقابلہ کمیونسٹ نکولائی خاریتونوف، قوم پرست لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما لیوند سلاتسکی اور نیو پیپلز پارٹی کے ولادی سلاو داونکوف سے ہے۔

جنگ مخالف امیدوار بورس نادیزدین کو یکاتیرینا دنتسووا کی طرح انتخاب لڑنے سے روک دیا گیا تھا۔

کے جی بی کے سابق لیفٹیننٹ کرنل 71 سالہ پوتن کو 1999 کے آخری دن بورس یلسن نے قائم مقام صدر مقرر کیا تھا۔ انہوں نے 2000 کے صدارتی انتخاب میں 53.0 فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی اور 2004 کے انتخاب میں 71.3 فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔

2012 میں 63.6 فیصد لینے سے قبل انہوں نے 2008 میں بطور وزیر اعظم خدمات انجام دیں۔ اس موقعے پر دمتری میدوی دیف نے صدارتی انتخاب میں حصہ لیا۔ انہوں نے 2018 میں 76.7 فیصد ووٹ لیے۔

روسی صدر کب تک حکومت کر سکتے ہیں؟

پوتن پہلے ہی طویل عرصے تک صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ جوزف سٹالن کے بعد کسی بھی دوسرے روسی حکمران کے مقابلے میں زیادہ عرصے تک اقتدار میں رہ چکے ہیں حتیٰ کہ وہ سوویت رہنما لیوند برزنیف سے بھی آگے نکل گئے جن کی مدت اقتدار 18 سال ہے۔

1993 کا روسی آئین جس کی ایک حد تک بنیاد فرانس کے 1958 کے آئین پر رکھی گئی مغرب کی جانب سے ایسی پیشرفت کے طور پر دیکھا گیا جس کے تحت سوویت دور کے خاتمے کے بعد روس میں جمہوریت کا اغاز ہو گا۔

روسی آئین میں ابتدائی طور پر اس میں واضح کیا گیا کہ ایک صدر مسلسل صرف چار سال کی دو مدتوں کے لیے خدمات انجام دے سکتا ہے لیکن 2008 میں ہونے والی ترامیم نے صدارتی مدت کو بڑھا کر چھ کر دیا۔

2020 میں ہونے والی آئینی ترامیم کے بعد پوتن غیرمعینہ مدت تک اقتدار میں رہیں گے جس کا مطلب ہے کہ  وہ ممکنہ طور پر 2036 تک اقتدار میں رہ سکتے ہیں۔ ان ترامیم میں روس کا کوئی بھی علاقہ کسی دوسرے ملک کے حوالے کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔

جمہوریت یا آمریت؟

مغربی ملک پوتن کو جنگی مجرم، قاتل اور آمر کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن اندرون ملک رائے عامہ کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی مقبولیت کی درجہ بندی 85 فیصد ہے جو یوکرین پر حملے سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

کریملن کا کہنا ہے کہ پیوٹن کو روسی عوام کی زبردست حمایت حاصل ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ مغرب اسے جمہوریت کے بارے میں لیکچر دے۔

روسی حکام کا کہنا ہے کہ مغرب روسی صدارتی الیکشن کی قانونی حیثیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کرکے روس کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

حامیوں کا کہنا ہے کہ پوتن نے 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد عروج پر پہنچنے والے زوال کے دائرے کو پھیلنے سے روک دیا اور کم از کم سوویت کمیونسٹ پارٹی کے ان جنرل سیکریٹریرز کے اثر و رسوخ کو کسی حد تک بحال کیا جو کبھی سوویت یونین پر حکمرانی کیا کرتے تھے۔

روس کا زیادہ تر حزب اختلاف جس میں سخت گیر کمیونسٹوں سے لے کر بنیاد پرست قوم پرستوں شامل ہیں، سخت کنٹرول والے سیاسی نظام کے رسمی اصولوں پر عمل پیرا ہیں اور پارلیمنٹ میں نشستیں ہونے کے باوجود بڑے معاملات پر کریملن کی مخالفت نہیں کرتے۔ مغرب نواز لبرلز کے پاس پارلیمنٹ میں کوئی نشست نہیں ہے۔

حزب اختلاف کے سابق سیاست دان الیکسی نوالنی کے حامی یا تو جیل میں ہیں یا بیرون ملک فرار ہو چکے ہیں۔ سابق آئل ٹائیکون میخائل خودورکوفسکی کی طرح دیگر مخالفین بھی بیرون ملک مقیم ہیں۔

انہوں نے پوتن کو مافیا طرز کا گاڈ فادر قرار دیا ہے جس نے کرپشن پر انحصار کرتے ہوئے ذاتی حکمرانی کا نظام تشکیل دیا۔ پوتن کے مخالفین 1999 سے ہی پیشگوئی کر رہے ہیں کہ انتشار ایک دن ان کے قائم کردہ نظام کو ختم کر دے گا۔

احتجاجی مظاہرے

روسی اپوزیشن لیڈر الیکسی نوالنی کی بیوہ یولیا نوالنیا نے کہا ہے کہ ان کے خاوند کی موت کے بعد سے ان کے لیے عوامی حمایت اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا مقصد زندہ ہے اور انہوں نے انتخاب کے دن پوتن کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کی کال دی ہے۔

نوالنی نے اپنے آخری عوامی پیغام میں لوگوں پر زور دیا تھا کہ وہ 17 مارچ کو مقامی وقت کے مطابق دوپہر کو اجتماعی طور پر ووٹ ڈال کر پوتن کے خلاف احتجاج کریں۔

نوالنیا نے اپنے شوہر کی کال پر عمل کریں گی۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ بہت ہی سادہ اور محفوظ عمل ہے۔ اس پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی اور اس سے لاکھوں لوگوں کو ہم خیال لوگوں کو دیکھنے اور یہ محسوس کرنے میں مدد ملے گی کہ ہم اکیلے نہیں ہیں۔ ہمارے اردگرد ایسے لوگ ہیں جو جنگ، بدعنوانی اور لاقانونیت کے بھی خلاف ہیں۔‘

روسی قوم پرست مسلحہ جتھے کے سابق کمانڈر ایگور گرکن جنہیں جنوری میں چار سال قید کی سزا سنائی گئی تھی نے کہا کہ مارچ میں ہونے والا صدارتی الیکشن ایک ’دکھاوا‘ ہے جس میں جیتنے والا پہلے ہی واضح ہے۔

گرکن جو یوکرین کو خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا زیادہ تر حصہ روس کا حصہ ہے، نے کہا کہ روس کو جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا جب تک کہ ملک اعلی کمانڈروں کو برطرف نہیں کرتا اور زیادہ سنجیدہ طریقے سے لڑنا شروع نہیں کرتا۔

انتخابی مبصرین کیا کہتے ہیں؟

یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم (او ایس سی ای) کے دفتر برائے جمہوری ادارہ جات اور انسانی حقوق (او ڈی آئی ایچ آر) نے جنوری میں کہا تھا کہ یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ روس نے صدارتی الیکشن میں او ایس سی ای مبصرین کو مدعو نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

او ایس سی ای کی پارلیمانی اسمبلی کی صدر پیا کوما کے مطابق: ’ ہمیں افسوس ہے کہ روس میں حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ ہم مارچ میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے لیے مبصرین تعینات نہیں کر سکتے۔

’او ایس سی ای پی اے کے پہلے انتخابی مشاہدہ مشن نے 1993 میں روس کا دورہ کیا اور اس کے بعد سے ہم نے ملک میں 10 قومی انتخابات کا مشاہدہ کیا۔ یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ جمہوری زوال اس نازک موڑ پر پہنچ چکا ہے کہ ہم اس سال کا مشاہدہ کرنے کے لیے موقعے پر نہیں جا سکتے لیکن ہم یقینی طور پر صورت حال پر گہری نظر رکھیں گے۔‘

2018 میں او ڈی آئی ایچ آر نے کہا کہ ووٹر ٹرن آؤٹ میں اضافے کے لیے سخت کوششیں کی گئیں اور شہریوں نے قابل ذکر تعداد میں ووٹ ڈالا۔

’اس کے باوجود لوگوں کے جمع ہونے، تنظیم اور اظہار رائے کی بنیادی آزادیوں سمیت امیدواروں کے اندراج پر پابندی نے سیاسی شمولیت کی گنجائش محدود کردی ہے اور اس کے نتیجے میں حقیقی مسابقت کا فقدان پیدا ہوا ہے۔‘

او ڈی آئی ایچ آر کے مطابق: ’اگرچہ امیدوار بالعموم آزادانہ انتخابی مہم چلا سکتے ہیں لیکن زیادہ تر میڈیا میں موجودہ صدر کی وسیع اور بلاتنقید کوریج کے نتیجے میں کھیل کا میدان ناہموار ہو چکا ہے۔ مجموعی طور پر ووٹوں کی رازداری اور گنتی کی شفافیت کی خامیوں کے باوجود انتخاب کا دن منظم طریقے سے اہتمام کیا گیا۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا