خانہ بدوشی ترک کر کے کاروبار کرنے والی سندھ کی قبائلی خواتین

خانہ بدوش قبیلہ میواڑ کے راجہ مہاراجہ پرتاب کے لیے لوہے کے ہتھیار بناتا تھا۔ اس قبیلے سے تعلق رکھنے والی خاتون دیوی نے اپنا کاروبار شروع کیا ہے۔

سندھ کے کئی خانہ بدوش قبیلے ایسے ہیں جنہوں نے خانہ بدوشی ترک کر کے اب کاروبار شروع کیا ہے جن ان کی خواتین کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔

سندھ میں بسنے والے خانہ بدوش قبیلے تو بہت ہیں جن میں کبوترے، گرگلے، سانسی، راوڑے، جوگی، بڑھے، مداری، شکاری، گاڈولیا، لوہار، گوارئے، جت، اور بھی بہت سارے قبیلے شامل ہیں۔

ان میں سے کئی قبیلوں سے تعلق رکھنے والے افراد مختلف جگہوں مثلاً بس سٹاپ، ریلوے سٹیشن، ہسپتالوں اور درگاہوں پر بھیک مانگتے ہوئے نظر آئیں گے۔

مگر اب چند قبیلے ایسے بھی ہیں جںہوں نے خانہ بدوشی چھوڑ دی ہے اور سندھ کے مختلف شہروں اور قصبوں میں مستقل آباد ہو گئے ہیں۔

یہ قبیلے بھیک مانگنے کے بجائے مزدوری اور چھوٹے کاروبار کرتے ہیں۔ ان کاروبار اور مزدوری کرنے والے قبیلوں کی خواتین اس کام میں مردوں کے ہاتھ بٹاتے ہوئے نظر آتی ہیں۔

شہروں میں اب مستقل آباد ہونے والے قبیلوں میں ایک لوہاریا قبیلہ بھی شامل ہے۔ اس لوہاریا قبیلے کو کاریا یا گاڈولیا لوہار بھی کہا جاتا ہے۔

یہ قبیلہ میواڑ کے راجہ مہاراجہ پرتاب کے لیے لوہے کے ہتھیار بناتا تھا۔

دیوی لوہار اسی قبیلے کی خاتون ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’ہم نے خانہ بدوشی اختیار کی تھی، ہماری لکڑی کی ایک گاڑی ہوتی تھی ( بیل گاڑی) وہ ہمارا گھر تھا۔ اس لکڑی کی گاڑی میں ہم ایک ہفتہ ایک گاؤں تو دوسرا  ہفتہ دوسرے گاؤں میں ہوتے تھے۔ ہم وہاں  کاشت میں استعمال ہونے والے اوزار کاشتکاروں کے لیے بناتے تھے۔ اس کے بدلے میں کاشت کار ہمیں گندم چاول اور باجرا دیتے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دیوی لوہار اس وقت تھر کے چھوٹے سے شہر تھر نبی سر میں اپنے خانداں اور قبیلے کے ساتھ رہتی ہیں۔ وہ اپنے شوہر خانوں کی لوہے کے کام کرنے میں مدد بھی کرتی ہیں اور ٹوکرا سر پر اٹھاکر کر سامان بھی بیچتی ہیں۔

دیوی کا کہنا ہے کہ ’جب سے کاشت میں مشینیں آئی ہیں تو ہمارا لوہے کا کام بھی بالکل رک گیا ہے اس لیے ہمارا گزارا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ورنہ ہمارے قبیلے کی عورتیں یہ کام نہیں کرتی تھیں۔ ہم صرف لوہے کے کام میں اپنے مردوں کی مدد کرتے تھے۔ مگر اب ہم ٹوکرے اٹھا کر گھر گھر جاتے ہیں بس سٹاپ، ریلوے سٹیشن، میلوں، میں جا کر یہ سامان بیچتے ہیں۔‘

صرف لوہار قبیلے کی خواتین یہ کام نہیں کرتیں اس میں اور بھی خانہ بدوش قبیلوں کی خواتین شامل ہیں۔ جس میں گرگلے، گوارے اور بروہی قبائل کی خواتین شامل ہیں۔

دیوی لوہار بتاتی ہیں کہ ’میں سارا ساماں کنری شہر سے خرید کرتی ہوں سامان لینے بھی اکیلی جاتی ہوں اور بیچنے بھی اکیلی جاتی ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب قصبوں میں سامان بیچنے جاتے ہیں تو وہاں کتے زیادہ ہوتے ہیں وہ ہمیں کاٹنے کو آتے ہیں اور قصبوں میں خواتین گھروں سے نہیں نکلتیں تو گھر گھر جانا پڑتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ بعض اوقات خواتین سامان لیتے وقت بہت کم قیمت لگاتی ہیں جس میں مول بھاؤکرنا پڑتا ہے، کبھی کبھی تو بالکل کاروبار نہیں ہوتا ہے تو انہیں سامان بیچنے کے لیے منتیں بھی کرنی پڑتی ہیں۔

دیوی بتاتی ہیں کہ چہرے کی کریم کی ایک ڈبیا پہ پانچ روپہ ملتے ہیں، چوڑیوں کے بنڈل پر تین سے پانچ روپے ملتے ہیں کھلونوں پہ تین سے پانچ روپیے ملتے ہیں۔

دیوی نے بتایا کہ ’ہم بولنے کو تو سندھی، اردو، ڈھاٹکی اور سندھ میں بولی جانے والی زبانیں بول لیتی ہیں کیوں کہ ہم سامان بیچنے جاتے ہیں تو ہر زبان کا خریدار ملتا ہے مگر ہم کو پھر بھی پیاری زبان اپنی مارواڑی ہی لگتی ہے اور ہمیں لباس بھی اپنا ہی اچھا لگتا ہے اس لیے آج تک ہم نے نہ زبان چھوڑی ہے اور نہ لباس۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین