چئیرمین قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق سینیٹر ولید اقبال نے پیر کو اسلام آباد میں کہا ہے کہ توہین مذہب قانون کے حوالے سے ’ملک میں ذہن سازی میں اہم اور ضروری تبدیلی درکار ہے جس میں اخوت، محبت، رواداری اور باہمی برداشت ہے۔‘
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اسلام آباد میں ہوئے اجلاس میں جڑانوالہ جیسے واقعات سے بچنے کے لیے وزارت انسانی حقوق اور انسانی حقوق کمیٹی نے نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی تشکیل دینے کی سفارش کی ہے۔
پیر کو ہوئے اجلاس میں کمیٹی نے ملک بھر میں ہونے والے توہین مذہب سے متعلق واقعات کی تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں۔
توہین مذہب قوانین:
توہین مذہب قوانین سے متعلق بات کرتے ہوئے چئیرمین قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق سینیٹر ولید اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’لوگ جب قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اس پر بے حد تشویش کا اظہار کیا گیا۔ توہین م کے قوانین نازک اور حساس معاملہ ہیں۔
’اس معاملے پر کئی سفارشات پیش ہونا تھیں جن میں وزارت انسانی حقوق کی سفارشات بھی شامل تھیں جبکہ اجلاس میں بھی ایک دو اراکین نے بھی سفارشات پیش کیں۔‘
سینیٹر ولید اقبال نے کہا کہ ’ملک میں ذہن سازی میں اہم اور ضروری تبدیلی درکار ہے جس میں اخوت، محبت، رواداری اور باہمی برداشت ہے۔ یہ وہ اقدار ہیں جو حضرت محمد کی تعلیمات سے حاصل ہوتی ہیں۔ اس معاملے پر تفصیل سے گفتگو ہوگی۔‘
کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کی سینیٹر سیمی ایزدی نے توہین مذہب قانون کا دوبارہ جائزہ لینے کی تجویز دی ہے۔
بعدازاں سینیٹ کی کمیٹی نے نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی کی تشکیل کی سفارش کی۔
اجلاس کے دوران پاکستان تحریک انصاف کی سینیٹر سیمی ایزدی نے کہا: ’پہلے اس طرح کے واقعات زیادہ نہیں ہوتے تھے۔ دیکھنا ہو گا کہیں کچھ رہ تو نہیں گیا؟ بہت سے لوگ اس پر بات کرنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ توہین مذہب کے قانون کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے۔‘
مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا: ’میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا، قانون نہیں ہو گا تو پھر کوئی روک تھام نہیں ہو گی۔ ہر واقعے کو روکنے کے لیے قانون ہونا چاہیے۔ راستہ بند نہیں ہونا چاہیے۔‘
اس پر سیمی ایزدی نے جواب دیا راستہ بند نہیں کریں گے اس قانون کا جائزہ لیں گے۔
کمیٹی نے ملک بھر میں ہونے والے توہین مذہب سے متعلق واقعات کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔
جڑانوالہ واقعے پر وزارت انسانی حقوق کی بریفنگ:
سیکریٹری انسانی حقوق اللہ ڈینو خواجہ نے کمیٹی کو جڑانوالہ واقعے کی بریفنگ میں بتایا کہ دو مسیحی نوجوانوں پر قرآن پاک کی بے حرمتی کا الزام لگایا گیا۔ 60 سے زیادہ گھروں کو جلایا گیا، جبکہ 100 افراد کو اس معاملے میں گرفتار بھی کیا گیا۔
وزیر انسانی حقوق نے کہا: ’کسی ایک کے کہنے پر ساری برادری کو نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔‘
جڑانوالہ واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ’ہماری مائیں بہنیں جانوروں سے اتنا نہیں ڈر رہی تھیں جتنا انسانوں سے ڈر رہی تھیں۔‘
انہوں نے بتایا وزارت انسانی حقوق نے 92 خاندانوں کو معاوضہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی سیکریٹری نے وفاق اور صوبوں کے درمیان اس طرح کے واقعات کے حوالے سے رابطوں کے فقدان کی تصدیق کرتے ہوئے نیشنل کوآرڈیشن کمیٹی کے قیام کی تجویز کی حمایت کی۔
اللہ ڈینو نے اجلاس میں انکشاف کیا کہ جڑانوالہ واقعہ کے بعد کراچی، لاہور اور فیصل آباد میں ایسے چار واقعات ہوئے، جبکہ فیصل آباد میں مبینہ توہین مذہب کے الزام میں دو افراد کو گولیاں بھی ماری گئیں۔
اس سلسلے میں وفاقی سیکریٹری نے پولیس میں بھی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔
پابند سلاسل پی ٹی آئی رہنما اور کارکن:
پاکستان تحریک انصاف کی سینیٹر فلک ناز نے کہا ہے کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور 35 خواتین جیلوں میں ہیں، جن کے ساتھ ملاقات ہونی چاہئے۔
’خواتین بنا کسی کیس کے کئی ماہ سے گرفتار ہیں، ان سے جیل میں جا کر ملاقات کرنی چاہیے۔‘
اس پر چئیرمین کمیٹی نے کہا ہم جیل جا کر ملاقات کرتے ہیں، جبکہ اس معاملے پر چیئرمین سینیٹ سے بھی بات کی جائے گی۔
چئیرمین کمیٹی ولید اقبال نے کہا گرفتاریوں سے متعلق اسے مہینے کمیٹی کا اجلاس منعقد کیا جائے گا۔
اجلاس کے بعد سینیٹر سیمی ایزدی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس طرح کے واقعات اتنے ہونے لگے ہیں، اس کی کوئی تو وجہ ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ یہ کریں گے تو جنت میں جائیں گے۔ ہم نے صرف قانون پر نظرثانی کرنی ہے، ہم نے قانون کو تبدیل نہیں کرنا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ صرف دیکھنا ہو گا کہ قانون کو کس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
’ہم قانون کو تبدیل نہیں کر رہے صرف جائزہ لیں گے، اگر قانون ٹھیک لگا تو ٹھیک ہے۔ ہمیں سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا۔‘