ایک نئی تحقیق میں وقفے وقفے سے فاقہ کرنا یا انٹرمیٹنٹ فاسٹنگ کے صحت پر مبینہ فوائد کو چیلنج کیا گیا ہے۔ یہ ایک مقبول خوراک ہے جس کو اکثر مشہور شخصیات اور صحت کے متعلق مشورے دینے والے گروؤں کی جانب سے سراہا جاتا ہے۔
انٹرمیٹنٹ فاسٹنگ ایک مشہور عمل ہے جس میں آپ اپنا سارا کھانا آٹھ گھنٹے میں کھاتے ہیں اور دن کے بقیہ 16 گھنٹے روزہ رکھتے ہیں۔
تاہم امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے پیر 18 مارچ کو شائع ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کھانے کے اوقات کو دن میں صرف آٹھ گھنٹے تک محدود رکھنے سے دل کی بیماریوں کے باعث موت کا خطرہ 91 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
شنگھائی جیاؤ ٹونگ یونیورسٹی سکول آف میڈیسن کے ڈاکٹر وکٹر ژونگ کی سربراہی میں محققین نے امریکہ میں تقریباً 20 ہزار بالغ افراد کا تجزیہ کیا جن کی اوسط عمر 49 سال تھی جو انٹرمیٹنٹ فاسٹنگ کرتے تھے، جسے 16:8 پلان بھی کہا جاتا ہے۔
شکاگو، الینوائے میں اے ایچ اے کی وبائی امراض اور روک تھام کی کانفرنس میں پیش کی گئی۔ اس تحقیق کے مطابق جو لوگ اپنے کھانے کو دن میں آٹھ گھنٹے تک محدود کرتے ہیں ان میں دل کی بیماریوں سے مرنے کا امکان 12 یا 16 گھنٹے کھانا کھانے والوں کے مقابلے میں 91 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
پہلے سے دل کی بیماری میں مبتلا شرکا میں، روزانہ آٹھ سے 10 گھنٹے کے درمیان کھانے سے ان میں دل کی بیماری یا فالج سے مرنے کا خطرہ 66 فیصد بڑھ جاتا۔
دریں اثنا کینسر میں مبتلا افراد جو دن میں 16 گھنٹے سے زیادہ وقت کھانا کھاتے ہیں، ان میں اس بیماری سے مرنے کا امکان کم ہوتا ہے۔
محققین کو یہ بھی معلوم ہوا کہ پابندی کے ساتھ مقرر کردہ وقت میں کھانا کھانے سے کسی بھی وجہ سے لاحق موت کا مجموعی خطرہ کم نہیں ہوتا ہے۔
تحقیق کے سینیئر مصنف ڈاکٹر ژونگ کا کہنا تھا کہ ’روزانہ کھانے کے وقت کو مختصر دورانیے تک محدود کرنا، جیسا کہ روزانہ آٹھ گھنٹے، حالیہ برسوں میں وزن کم کرنے اور دل کی صحت کو بہتر بنانے کے طریقے کے طور پر مقبول ہوا ہے۔
’تاہم، مقرر وقت پر کھانے کے طویل مدتی صحت کے اثرات معلوم نہیں، ان میں دل کی بیماری یا کسی بھی وجہ سے موت کا خطرہ بھی شامل ہیں۔‘
انہوں نے کہا، ’ہمیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ جو لوگ آٹھ گھنٹے کے محدود وقت میں کھانے والے شیڈول پر عمل کرتے ہیں ان میں دل کی بیماریوں سے مرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
’اگرچہ اس قسم کی غذا اپنے ممکنہ قلیل مدتی فوائد کی وجہ سے مقبول رہی ہے، لیکن ہماری تحقیق سے واضح ظاہر ہوتا ہے کہ روزانہ 12-16 گھنٹے کھانے کے مقابلے میں کھانے کے مختصر دورانیے کا لمبے عرصے تک زندہ رہنے سے کوئی تعلق نہیں۔‘
اس تحقیق میں 2003-2018 کے نیشنل ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ایگزامینیشن سروے کے شرکا کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا اور اس کا موازنہ سینٹرفار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے نیشنل ڈیتھ انڈیکس ڈیٹا بیس سے کیا گیا جن کی موت امریکہ میں 2003 سے دسمبر 2019 تک ہوئی۔
محققین نے تسلیم کیا کہ اس مطالعے کے نتائج محدود تھے کیونکہ اس کا انحصار خود رپورٹ کردہ غذائی معلومات پر تھا، نیز دیگر عوامل، جو شرکا کی صحت میں کردار ادا کر سکتے ہیں، پر توجہ مرکوز کرنے میں ناکامی ہوئی۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی میں میڈیسن کے پروفیسر ڈاکٹر کرسٹوفر ڈی گارڈنر کا کہنا ہے کہ ’مجموعی طور پر، اس مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مقرر کردہ وقت میں کھانے سے قلیل مدتی فوائد لیکن طویل مدتی منفی اثرات ہو سکتے ہیں ۔ جب مکمل تحقیق پیش کی جائے گی تو تجزیے کی مزید تفصیلات دلچسپ اور مددگار ثابت ہوں گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’ان تفصیلات میں سے ایک شرکا کے مختلف ذیلی سیٹوں کی مخصوص غذا کا غذائی معیار بھی تھا، اس معلومات کے بغیر، یہ تعین نہیں کیا جا سکتا کہ کیا ضروری غذائی اجزا کی مقدار ان نتائج کی متبادل وضاحت ہو سکتی ہے جو فی الحال کھانے کے لیے مخصوص وقت کے دورانیے پر مرکوز ہیں۔ دوسرا اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ مقررہ وقت پر کھانے کی مختلف اوقات میں درجہ بندی کا تعین صرف دو دن کی خوراک کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔‘
تقریباً نصف شرکا مرد اور نصف خواتین تھیں۔ تقریباً 73 فیصد شرکا غیر ہسپانوی سفید فام بالغ تھے، جب کہ 11 فیصد ہسپانوی تھے۔ شرکا میں سے آٹھ فیصد غیر ہسپانوی سیاہ فام بالغ تھے، اور تقریبا سات فیصد بالغوں کی شناخت دوسری نسل کے باشندوں کے طور پر کی گئی۔
گارڈنر کا مزید کہنا تھا کہ ’ان گروپوں میں ڈیموگرافکس اور بیس لائن خصوصیات کا موازنہ دیکھنا بھی اہم ہو گا، جنہیں مقررہ وقت کے اندر کھانے کے مختلف دورانیے میں تقسیم کیا گیا تھا۔
’مثال کے طور پر کیا کھانے کے سب محدود دورانیے والا گروپ ان کے مقابلے میں منفرد تھا جو وزن، تناؤ، روایتی کارڈیو میٹابولک خطرے کے عوامل یا دیگر عوامل کے لحاظ سے کھانے کے الگ شیڈول پر عمل کرتے تھے؟
اس اضافی معلومات سے اس دلچسپ خلاصے میں بیان کردہ مختصر وقت کے کھانے کے مخصوص اثرات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔‘
جون 2023 میں اسی طرح کی ایک تحقیق میں موٹاپے کا شکار بالغوں کے وزن میں کمی کے نتائج کا تجزیہ کیا گیا تھا جنہوں نے روایتی خواراک کے مقابلے میں انٹرمیٹنٹ فاسٹنگ کی تھی۔
جرنل اینلز آف انٹرنل میڈیسن میں شائع ہونے والے نتائج سے پتہ چلا کہ جو لوگ آٹھ گھنٹے کے محدود وقت میں کھانا کھاتے ہیں ان میں گلوکوز کی حساسیت کنٹرول گروپ کے ان افراد کے مقابلے میں بہتر ہوتی ہے جو دن میں 10 یا اس سے زیادہ گھنٹے سے زیادہ وقت کھاتے ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent