’بم ڈسپوزل یونٹ کے اہلکاروں نے جائے وقوع پر پہنچ کر بم کو ناکارہ بنا دیا۔‘
ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات سے جڑی خبروں میں پولیس کے اس شعبے یعنی بی ڈی یو کا ایک سطر پر مشتمل تذکرہ ضرور ہوتا ہے۔ ہم سرسری سی خبر پڑھتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔
لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن کے یہ سپاہی کس طرح اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر، زخم کھا کر اپنے ہم وطنوں کی جانیں بچاتے ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شاید میں بھی نہ سوچتی، اگر یونہی فیس بک پر وقت گزاری کرتے کرتے میری نظر اُس پوسٹ پر نہ پڑتی جس میں صوبہ خیبر پختونخوا کے بم ڈسپوزل یونٹ (بی ڈی یو) پر بننے والی ایک دستاویزی فلم کی ایمی ایوارڈز کے لیے نامزدگی کا اعلان کیا گیا تھا۔
’آرمڈ وِد فیتھ‘ (ایمان سے مسلح) کے نام سے بنائی گئی اس دستاویزی فلم کو 40 ویں سالانہ نیوز اور ڈاکیومینٹری ایمی ایوارڈز کی سیاست اور حکومت کے حوالے سے بہترین ڈاکیومینٹری کی کیٹیگری کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ ایوارڈ کی تقریب رواں ماہ 24 ستمبر کو نیویارک سٹی میں واقع لنکن سینٹر کے ایلس ٹلی ہال میں منعقد ہوگی۔
یہ یقیناً پاکستان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ دستاویزی فلم کا ایک چھوٹا سا کِلپ دیکھنے کے بعد اس حوالے سے مزید جاننے کی جستجو ہوئی اور یوں رابطہ ہوا فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر اسد فاروقی سے، جنہوں نے ٹیلیفونک گفتگو کے دوران اس دستاویزی فلم کی فلم بندی، اپنے تجربات اور خیبرپختونخوا بم ڈسپوزل یونٹ کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں کیں۔اسد فاروقی گذشتہ 10، 12 سال سے دستاویزی فلم کے شعبے سے منسلک ہیں۔ انہوں نے 2009 میں مشہور دستاویزی فلمساز شرمین عبید چنائے کے ساتھ بحیثیت شریک پروڈیوسر کام کا آغاز کیا، جن کے ساتھ ان کی آخری فلم ’اے گرل اِن دا ریور‘ تھی، جسے ایوارڈ بھی ملا۔
اسد ’جنگوں اور ان سے جڑے تنازعات‘ کے موضوعات پر کام کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے بتایا: ’میں 15 سال کا تھا جب امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا، بس وہیں سے ان موضوعات کی طرف شوق پیدا ہوا۔‘
اسد کی خواہش تھی کہ وہ عراق جا کر وہاں کوئی دستاویزی فلم بنائیں، لیکن پھر انہیں خیبرپختونخوا بم ڈسپوزل سکواڈ کے بارے میں پتہ چلا تو انہوں نے سوچا کہ جب اپنے ہی ملک میں اس موضوع پر کام ہو سکتا ہے تو کہیں اور کیوں جایا جائے، جس کے بعد فروری 2014 میں انہوں نے اس دستاویزی فلم پر بطور ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کام کا آغاز کیا۔ بھارتی ہدایت کارہ اور پروڈیوسر گیتا گندبھیر بھی بحیثیت پروڈیوسر اس دستاویزی فلم کا حصہ تھیں۔
اسد نے بتایا: ’دستاویزی فلم کے سلسلے میں میری پہلی ملاقات اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) اور خیبرپختونخوا بم ڈسپوزل یونٹ کے سربراہ شفقت ملک صاحب سے ہوئی، ابھی ہمیں بات کرتے ہوئے 10 سے 15 منٹ ہی ہوئے تھے کہ بم دھماکے کی اطلاع آگئی۔‘
اسد نے اس فلم پر کام کا آغاز 2014 میں کیا تھا، جس کی تکمیل 2017 میں ہوئی اور اسی برس جون میں اسے ریلیز کیا گیا۔
اس تاخیر کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’2014 سے 2015 تک اس دستاویزی فلم کی شوٹنگ ہوئی، لیکن پھر آپریشن ضرب عضب کے آغاز اور 2016 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد سے ہمارا کام کم ہو گیا کیونکہ دہشت گردی کے واقعات نے جڑ پکڑ لی تھی۔‘
اس دستاویزی فلم کو بنانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ پاکستان اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کا ایک مثبت امیج دنیا کے سامنے لایا جائے۔ اسد کہتے ہیں: ’افغانستان اور نیٹو فورسز پر جو فلمیں بنائی گئی ہیں، ان میں غیر ملکی پروپیگنڈا ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں ایسا کام نہیں کیا جاتا۔ مغرب والوں کی نظر میں یہاں کا ہر شخص دہشت گرد ہے۔‘ یہی وجہ ہے کہ اسد اپنی اس ڈاکیومینٹری کے ذریعے یہ دکھانا چاہتے تھے ہر کوئی دہشت گرد نہیں ہے۔
’ٹائیگر‘ کا مشن جاری
’آرمڈ وِد فیتھ‘ کا ایک اہم کردار ڈیرہ اسماعیل خان کے عنایت اللہ عرف ٹائیگر ہیں، جو لوگوں کی جانیں بچانے کے اس مشن میں خود اپنی ٹانگ گنوا چکے ہیں، لیکن ان کا عزم اور حوصلہ ماند نہیں پڑا۔
عنایت اللہ نے بتایا کہ وہ 1998 میں خیبرپختونخوا پولیس میں بھرتی ہوئے اور 2000 میں بم ڈسپوزل سکواڈ میں شامل ہو گئے۔ 2007 تک یہ بم ڈسپوزل سکواڈ (بی ڈی ایس) کہلاتا تھا، لیکن جب دہشت گردی انتہا کو پہنچی تو اسے یونٹ کا درجہ دے کر بم ڈسپوزل یونٹ (بی ڈی یو) بنا دیا گیا۔
کئی سالوں پر محیط اپنے کیریئر کے دوران عنایت نے کئی بم ناکارہ بنائے اور لوگوں کی جانیں بچائیں۔ ان ہی میں سے ایک واقعہ 2014 میں ڈیرہ اسماعیل خان سے 70 سے 80 کلومیٹر دور کولاچی کے علاقے بادشاہ باغ میں پیش آیا، جس کے دوران وہ اپنی ٹانگ سے محروم ہوئے۔
عنایت نے بتایا: ’مقامی لوگ وہاں اپنے مال مویشی چرانے کے لیے آتے تھے، جنہیں خوفزدہ کرنے کے لیے دہشت گردوں نے وہاں بارودی سرنگیں دبائی ہوئی تھیں، تاکہ ان کی زمینوں پر قبضہ کر سکیں۔ دو تین چرواہے وہاں گئے تو ایک کے پاؤں کے نیچے بارودی سرنگ پھٹ گئی، جس کے نتیجے میں دو چرواہے ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا۔ جب ہمیں اطلاع ملی تو ہم جائے وقوعہ پر پہنچے اور بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے کا کام شروع کیا، لیکن اسی دوران آخری بارودی سرنگ میرے پاؤں کے نیچے پھٹ گئی، جس سے میں کافی دور جاکر گرا۔ میرے دونوں پاؤں اور ہاتھ متاثر ہوئے۔ بعد میں میری بائیں ٹانگ کاٹنی پڑی جبکہ بائیں ہاتھ کی انگلیاں بھی متاثر ہوئیں۔‘
تاہم ٹانگ کٹ جانے اور متاثرہ ہاتھ کے ساتھ بھی عنایت اپنے مشن پر ڈٹے رہے اور مسلسل کام کرتے رہے۔
انہوں نے بتایا: ’میں 2015 میں اردن گیا۔ وہاں سے تربیت لی اور پھر واپس آکر کام کیا۔‘
عنایت 2014 میں پیش آنے والے اس حادثے کے بعد سے اب تک 95 آئی ای ڈیز ناکارہ بنا چکے ہیں۔
ڈاکیومینٹری میں ایک جگہ وہ بتاتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد میری بیگم نے مجھ سے سوال کیا کہ ’کیا آپ اب بھی یہ کام کریں گے؟‘ تو میں نے کہا: ’کیا میں کوئی غلط کام کر رہا ہوں؟‘
انہوں نے بتایا کہ ان کا محکمہ اور افسران ان سے بہت اچھے طریقے سے پیش آتا ہے۔ ’خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) ڈاکٹر محمد نعیم خان جب بھی مجھے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ میرے ساتھ ایک سیلفی تو بناؤ۔ انہوں نے مجھے تین لاکھ کی ٹانگ بھی لگوا کر دی۔ میرے افسران میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔‘
عنایت نے بتایا کہ پورے خیبرپختونخوا میں بی ڈی یو کے 300 کے قریب اہلکار ہیں جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ان کے ماتحت 30 لوگ ہیں۔
بم ڈسپوزل یونٹ کے اہلکاروں کو درپیش مسائل کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے اہلکار کبھی کہیں پھنس جاتے ہیں اور کبھی کہیں۔ کبھی ان (دہشت گردوں) کے نرغے میں آجاتے ہیں اور کبھی اغوا بھی ہو جاتے ہیں۔‘
معاشرے کے مردوں کی کہانی
اس دستاویزی فلم کے ساتھ بحیثیت شریک پروڈیوسر منسلک حیا فاطمہ اقبال اسے پاکستانی معاشرے کے اُن مردوں کی کہانی قرار دیتی ہیں، جن کے بارے میں شاذ و نادر ہی کوئی بات کرتا ہے۔
حیا اس سے قبل شرمین عبید چنائے کے ساتھ ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم ’گرل اِن دا ریور‘ میں بحیثیت شریک پروڈیوسر کام کرچکی ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’میں نے اس سے پہلے خواتین کو درپیش مسائل کے حوالے سے بہت سی فلموں پر کام کیا ہے، لیکن یہ ڈاکیومینٹری اس طرح سے مختلف ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کے مردوں کی کہانی ہے۔ ان مردوں کی جو اپنی جان خطرے میں ڈال کر دیگر بے شمار لوگوں کی جانیں بچاتے ہیں اور اس کے بدلے میں انہیں کچھ نہیں ملتا، سوائے زخموں اور معذوری کے۔
حیا کے بقول بی ڈی یو کے بارے میں مشہور ہے کہ جو غریب بیچارہ رشوت نہیں دے سکتا، اسے پولیس کے اس ڈپارٹمنٹ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ان لوگوں کی تنخواہیں بہت کم ہیں اور کام بہت مشکل ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ خطرے کے دہانے پر موجود ہوتے ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بی ڈی یو اہلکاروں کو دیا جانے والا خطرناک ملازمت کا الاؤنس ’ڈینجر الاؤنس‘ محض 50 روپے ہے، جو انگریزوں کے زمانے سے چلا آرہا ہے اور اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔
حیا چاہتی ہیں کہ اس فلم کی عالمی مقابلے میں نامزدگی کے وسیلے سے ہی خیبرپختونخوا پولیس کے اس شعبے میں اصلاحات ہو جائیں، یہی اس دستاویزی فلم اور اسے بنانے والوں کی سب سے بڑی کامیابی ہو گی۔