40 سالہ ارشد کو ملیریا کے خطرناک نتائج اور اس کا سستا لیکن مشکل علاج اُس وقت پتہ چلا جب صوابی میں ایک ڈاکٹر نے ان کی بیٹی کو ایک ایسی دوا تجویز کی جو میڈیکل سٹورز پر عدم دستیابی کی وجہ سے مشکل ہی مل پاتی ہے۔
صوابی کے ایک دور دراز گاؤں کے رہائشی ارشد کے مطابق ان کی 11 سالہ بیٹی شازیہ کو ایک سال کے عرصے میں دو بار ملیریا کا مرض لاحق ہو چکا تھا اور ان کے علاج کے لیے ڈاکڑ نے پرائیما کوئین دوا (کونین کی ایک قسم) یہ کہتے ہوئے تجویز کی تھی کہ اگر اس ملیریا کا صحیح علاج نہیں کیا گیا تو اس کے خطرناک نتائج نمودار ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ دوا ان کو مردان ڈویژن کے کسی سرکاری ہسپتال پر بھی دستیاب نہ ہو سکی۔ دو دن کی تگ و دو اور گھنٹوں کے سفر کے بعد انہیں بونیر میں وہ دوا مل گئی جو کہ ملیریا کو جڑ سے ختم کر دیتی ہے۔
ارشد کے برعکس اکثر لوگوں کے پاس تو یہ آگاہی ہی نہیں ہوتی کہ یہ خاص دوا انہیں کہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے اور وہ کوئی بھی متبادل استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ صوابی کے گاؤں اسمٰعیلہ کے رہائشی سلیمان کا کہنا تھا کہ ’میری اہلیہ کو پچھلے سال وائے وکس (vivax) ملیریا لاحق ہو گیا۔ دواؤں کی عدم دستیابی اور آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے پرائما کوئین کا استعمال نہیں کیا اور اگلے سال انہیں دوبارہ ملیریا ہو گیا۔‘
ضلع صوابی میں گذشتہ کچھ عرصے سے ملیریا پھیلتا جا رہا ہے اور متاثرہ افراد کے کیس بڑھتے جا رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا ملیریا کنٹرول پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد رحمان آفریدی یہ حقیقت تسلیم کرتے ہیں کہ ملیریا سے متاثرہ زیادہ تر افراد کی معلومات صوابی میں دستیاب نہیں ہوتیں اور صرف وہ واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جن کی اطلاع ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر کے دفتر تک پہنچ پاتی ہے۔ صوابی کے لوگوں کی اکثریت نجی کلینکوں یا ہسپتال میں علاج کرواتی ہے اور ان کے ٹیسٹ بھی پرائیویٹ لیبارٹریوں میں کروائے جاتے ہیں۔ تاحال ایسا کوئی طریقہ کار موجود نہیں کہ ضلعی سطح پر ملیریا کی مکمل معلومات اکٹھی کی جا سکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر محمد رحمان آفریدی کے مطابق صوابی خیبر پختونخوا کے اُن 11 اضلاع میں شامل ہے جہاں گلوبل فنڈ کی وساطت سے چلنے والا انسداد ملیریا پروگرام نہیں چلایا جا رہا اور نہ ملیریا سینٹرز اس طرح موجود ہیں جیسے باقی ا ضلاع میں قائم کیے گئے ہیں۔
صوابی کے ایک گاؤں میں واقع لیبارٹری کے ٹیکنیشن سلیمان زیب کے مطابق ملیریا کے کیسز پچھلے چار مہینوں سے بڑھتے ہی جا رہے ہیں لیکن پچھلے سال بھی ملیریا مریضوں کی تعداد کافی زیادہ تھی، جس کا اندازہ ہمیں ٹیسٹ کے نتائج سے ہوجاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صوابی میں ملیریا مریضوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ لیکن یہ تعداد سرکاری طور پر کسی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنتی اور ادویات کی ضلعی سطح پر دستیابی ان رپورٹس کی بنیاد پر ہوتی ہے جو ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ارسال کرتا ہے۔ حکام کے مطابق اس لحاظ سے انسداد ملیریا پروگرام میں کئی خامیاں ہیں جن پر ابھی توجہ نہیں دی گئی ہے۔
ڈائریکٹوریٹ آف ملیریا کنٹرول کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں خیبر پختونخوا میں ملیریا سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ ڈیرہ اسماعیل خان (ڈی آئی خان) کا ہے جہاں 35 سو 63 کیسز مثبت رپورٹ ہوئے۔ ڈی آئی خان خیبر پختونخوا کے اُن 14 اضلاع میں شامل ہے جو ملیریا کے لحاظ سے حساس قرار دیے گئے ہیں اور ان میں سے ہر ضلع میں 15 ملیریا سنٹر قائم کیے گئے ہیں جو علاج کے علاوہ مانیٹرنگ کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے وہاں ملیریا کے کیسز رپورٹ کرنے کی صورتحال بہت بہتر ہے۔ لیکن صوبے کے باقی 11 اضلاع جن میں صوابی بھی شامل ہے، اس حد تک ابتر صورتحال کا شکار ہیں کہ یہاں حالات کی سنگینی کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس ضلع سے صرف 414 کیس رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ حقیقت میں یہ تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ ڈاکٹر آفریدی کے مطابق صوابی سے متعلق مزید اقدامات پر غور ہو رہا ہے اور وہاں جلد ادویات کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔
اس ضمن میں جب ڈائریکٹوریٹ آف ملیریا کنٹرول اسلام آباد کے ڈائریکٹر ڈاکٹرعبدالبصیر خان اچکزئی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ملک بھر سے 66 اضلاع ملیریا کے لیے حساس قرار دیے گئے ہیں لیکن باقی اضلاع کی صورت حال صوبائی ڈائریکیٹوریٹ ہی بتا سکتا ہے۔ ہم صوبہ خیبر پختونخوا کے لیے دوا حال ہی میں ارسال کرچکے ہیں۔‘
لیکن ان تمام تر دعووں کے باوجود ان اضلاع میں ادویات کی فراہمی تا حال ایک خواہش ہی ہے۔ صوابی کے ایک رہائشی 50 سالہ اسلم خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صوابی کا مسئلہ ملیریا کے حوالے سے بہتر بنایا جاسکتا ہے اور نجی لیبارٹریز کو اس بات کا پابند بنایا جاسکتا ہے کہ وہ ہر ملیریا کیس کو ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر کے دفتر کو رپورٹ کرتے رہیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق ملیریا سے پِتے، گردوں اور خون کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں جن کی تشخیص اگر بروقت نہ ہوسکے تو وہ جان لیوا بھی ہوسکتے ہیں۔