’تو کیہ جانیں بھولیے مجھے انارکلی دیاں شاناں‘
یہ معروف جملہ ہمارے مزاحیہ شاعر انور مسعود کا ہے جو انارکلی کی منار مارکیٹ کے اوپر بالکل سامنے کی دیوار پر تحریر کیا گیا ہے۔
انارکلی کے دکانداروں کے مطابق یہ شعر ان لوگوں کے لیے ہے جو انارکلی کی اہمیت کو نہیں جانتے۔
شہر لاہور کا معروف ترین بازار انارکلی اپنے اندر ایک تاریخ رکھتا ہے۔ یہ بازار قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں جہاں تجارتی سرگرمیوں کا مرکز رہا وہیں یہ سیاسی و ادبی سرگرمیوں کا محور بھی رہا ہے۔
پاک ٹی ہاؤس جہاں حلقہ احباب زوق کی بیٹھکیں ہوا کرتی تھیں وہ اب بھی وہاں موجود ہے۔
یہی نہیں مغلیہ دور کے جہانگیر بادشاہ کی محبوبہ انار کلی اور مملوک سلطنت کے حکمران قطب الدین ایبک کے مقبرے بھی یہیں موجود ہیں۔
انارکلی بازار کی وسعت کا اندازہ لگائیں تو ایک طرف تو لاہور کی مال روڈ اسے لگتی ہے تو دوسری جانب اندرون لاہور کا لوہاری گیٹ اسے چھوتا ہے۔
انارکلی بازار میں ہمہ وقت رش رہتا ہے۔ اس کے بالکل ساتھ پنجاب یونیورسٹی کا نیو کیمپس ہے تو اس کے سامنے نیشنل کالج آف آرٹس بھی ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں مصوروں کا رش بھی لگا رہتا ہے اور اس بازار کے شروع میں ہی آرٹ میٹیریل اور سٹیشنری کی متعدد دکانیں ہیں جہاں سے ہر طرح کی وہ چیز جو ایک آرٹسٹ کو چاہیے دستیاب ہے۔
بازار کے اندر بیشتر بازار ہیں جن میں سب سے مشہور بانو بازار اور پان گلی ہے۔
دکانداروں کا کہنا ہے کہ انارکلی بازار میں ایک شخص ’پانچ ہزار روپے سے لے کر پانچ لاکھ روپے تک کی خریداری کر سکتا ہے۔‘
یہاں ہر طبقے کے لیے ان کے بجٹ کے مطابق چیزیں میسر ہیں۔ بچوں، بڑوں مرد و خواتین، نوجوانوں یعنی کے سب کے لیے یہاں کپڑے، جوتے کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ قیمت میں دستیاب ہیں۔
خواتین کی ضرورت کی اشیا جن میں کپڑے، جوتے مصنوعی زیورات، چوڑیاں، رنگ برنگے دوپٹے، گھر کو سجانے کے لیے چیزیں، شادی بیاہ کے جوڑے یعنی ہر شے یہاں پائی جاتی ہے جسے خواتین بڑے شوق سے خریدتی ہیں۔
انارکلی کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ انارکلی بازار سیاحوں کی دلچسپی کا ایک بڑا مرکز ہے۔ جو غیر ملکی سیاح لاہور آتے ہیں وہ انارکلی کی سیر کو ضرور آتے ہیں۔
جہاں تک بانو بازار کی بات ہے تو دکانداروں کے خیال میں بانو بازار ایک ایسا بازار ہے جہاں اگر کسی کی شادہ ہونے والی ہے تو وہ ضرور یہاں کا چکر لگاتے ہیں ’کیونکہ چاہے وہ کچھ خریدیں یا نہ خریدیں لیکن لاہوریوں کی شادی بانو بازار کا چکر لگائے بغیر پوری نہیں ہوتی۔‘
خواتین گاہکوں کے مطابق شادی بیاہ، عید یا دیگر تقریبات کے موقع پر چاہے کپڑے جوتے آپ کہیں اور سے لیں لیکن جیولری کے لیے انارکلی آنا ہی پڑتا ہے کیونکہ یہاں جو ورائٹی ملتی ہے وہ کہیں اور نہیں ملتی اور وہ بھی مناسب داموں میں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عید کے دنوں میں انارکلی بازار کا رش معمول سے بڑھ جاتا ہے خاص طور پر روزہ کھلنے کے بعد یہ بازار دیر رات تک کھلا رہتا ہے۔
جبکہ دکانداروں کے مطابق چاند رات سے دو تین روز قبل یہ بازار رات بھر بھی کھلا رہتا ہے اور یہاں گہما گہمی عروج پر رہتی ہے۔
انارکلی بازار کے اندر چھوٹی چھوٹی تنگ تنگ گلیوں میں سینکڑوں دکانیں کھلی ہیں جہاں دن کے وقت بھی روشنیاں جگ مگا رہی ہوتی ہیں۔
یہاں کی خاصیت یہ ہے کہ جس کے پاس اگر ایک میز اور کرسی ہے تو وہ بھی وہاں کچھ اشیا رکھ کر اپنا کاروبار شروع کر سکتے ہیں۔
بانو بازار کی بات کریں تو یہاں کا بانو چاٹ کارنر بہت مشہور ہے، لوگ کہتے ہیں کہ جو بانو بازار آئے اور یہاں کی چاٹ نہ کھائے یہ ممکن نہیں ہے۔
اس چاٹ کی دکان میں خواتین اور فیملیز کے لیے الگ کمرہ بنایا گیا ہے جہاں رمضان کے دوران بھی کچھ خواتین آپ کو چاٹ کھاتے دکھائی دیں گی۔
انارکلی بازار میں ایک مسئلہ پارکنگ کا ہے جیسے ہی بازار میں داخل ہوں گے تو آپ کو سڑک پر ان گنت موٹر سائیکلیں کھڑی دکھائی دیں گی اسی طرح انارکلی کو لگنے والا نیلا گمبد، اگر آپ اس طرف سے آئیں گے تو وہاں بھی پارکنگ ملنا خوش قسمتی کی بات ہو گی۔
بازار کے اندر تک گاڑی جا نہیں سکتی کیونکہ گلیاں تنگ ہیں اور اگر آپ گاڑی لے کر جائیں گے تو پھنس جائیں گے اس لیے بہتر یہ ہے کہ اگر آپ کو انار کلی بازار جانا ہو تو آپ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں، کوئی ٹیکسی اور یا پھر ڈرائیور سے بولیں آپ کو انارکلی اتار کر تب واپس آئے جب آپ اسے فون کریں کیونکہ یہاں شاپنگ کرنا ایک دو نہیں بلکہ کئی گھنٹوں کا کام ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔