کیجریوال مودی کا نعم البدل بن سکتے ہیں؟

کیجریوال کو گرفتار کرنے کے پیچھے ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ ان کی پارٹی قومی سطح پر ابھر رہی ہے، جس نے ریاستی انتخابات میں دہلی، پنجاب اور ہریانہ میں اپنی پوزیشن مستحکم کی ہے۔

 12 فروری 2015 کی تصویر میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی (دائیں) اور دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نئی دہلی میں ایک ملاقات کے دوران (اے ایف پی/ پریس بیورو انفارمیشن انڈیا)

انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو اگر دہلی کے وزیراعلیٰ اور سیاسی جماعت عام آدمی پارٹی کے قائد اروند کیجریوال کی گرفتاری کے بعد ظاہر ہونے والے ردعمل کا علم ہوتا تو شاید یہ جماعت ایسا قدم اٹھانے سے گریز کرتی۔ بی جے پی دہلی کی سیاسی دنگل میں نہ صرف بری طرح پھنس گئی ہے بلکہ اپنے بعض ووٹروں سے ہاتھ بھی دھو رہی ہے۔‘

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے:

دہلی کے صحافی معروف حسن کے ان خیالات کی گونج تقریباً ہر طرف سنائی دے رہی ہے۔

چند روز پہلے اروند کیجریوال کو رشوت لینے کے ایک معاملے میں مرکزی ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے ان کے گھر پر چھاپہ مار کر گرفتار کیا جبکہ اس سے قبل ان کی پارٹی کے بیشتر سینیئر رہنما اور وزرا کو گرفتار کر کے پابند سلاسل رکھا گیا ہے۔

عوام کے بیشتر حلقوں میں حیرانی اس بات پر ہے کہ جس شخص نے متنازع شراب پالیسی میں کروڑوں روپے کی رشوت لینے کا الزام عائد کیا ہے، اس نے بی جے پی کو الیکٹورل بانڈز کی ایک موٹی رقم ادا کر دی ہے۔

جس روز سپریم کورٹ نے الیکٹورل بانڈز اور سیاسی جماعتوں کو ملنے والے عطیات کی فہرست شائع کی، توقع کی جا رہی تھی کہ میڈیا میں اس پر بڑا بول ہونے والا ہے۔

عطیات کی موٹی رقومات حاصل کرنے والی جماعتوں میں بی جے پی سرفہرست ہے اور بیشتر کمپنیوں نے، جن پر انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے منی لانڈرنگ کے الزام میں چھاپے مارے ہیں، چھاپوں کے بعد بی جے پی کو 12 ہزار کروڑ سے زائد رقم بطور عطیہ دے چکی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جس پر اپوزیشن پارٹیوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی ان کمپنیوں سے ہفتہ وصول کر کے سب سے بڑے سکینڈل میں ملوث ہے اور منی لانڈرنگ میں ملوث بیشتر ایسی کمپنیوں کو سرکاری کنٹریکٹ سے نوازا گیا ہے۔

اروند کیجریوال کی گرفتاری کے پیچھے شاید الیکٹورل بانڈز سے عوام کی توجہ ہٹانی تھی۔

مگر ایک طرف بانڈز کا مسئلہ طول کھینچ رہا ہے تو دوسری جانب کیجریوال کی گرفتاری بی جے پی کے گلے پڑ رہی ہے۔

عوامی اور سیاسی حلقوں میں یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ حکمران جماعت نے نہ صرف میڈیا پر کنٹرول کر کے اپوزیشن کو ان کے ووٹروں تک رسائی محدود کردی ہے بلکہ وہ گرفتاری یا پارٹی فنڈز کو منجمد کرکے اور مذہبی منافرت سے سیکولر جمہوریت کا گلہ گھونٹ رہی ہے۔

اپوزیشن نے اس سلسلے میں انتخابی کمیشن میں شکایات درج کی ہیں مگر یہ تاثر عام ہے کہ کمیشن مصلحت پسندی کا شکار ہے اور عجلت میں کی جانے والی ارکان کی تقرری بھی اس کا عندیہ دیتی ہے۔

کیجریوال کو گرفتار کرنے کے پیچھے ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ ان کی پارٹی قومی سطح پر ابھر رہی ہے، جس نے ریاستی انتخابات میں دہلی، پنجاب اور ہریانہ میں اپنی پوزیشن مستحکم کی ہے۔

بی جے پی نے کانگریس کے خلاف مہم چلا کر شاید یہ سمجھ لیا تھا کہ ہندی بیلٹ والے شمالی انڈیا میں اس کے خلاف اپوزیشن اور مزاحمت ختم ہوچکی ہے مگر اسی بیلٹ میں کیجریوال کی پارٹی کا ابھرنا بی جے پی کے لیے اچھی خبر نہیں۔

اس کا توڑ کرنے کے لیے اس نے آپ پارٹی کے درجن بھر رہنماؤں کو جیلوں میں بند کر کے شاید اپنے لیے راستہ صاف کرنے کی کوشش کی مگر اس کے ردعمل میں تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہوگئی ہیں اورعلاقائی جماعتوں کے درمیان سیٹوں کی شراکت داری سے بی جے پی کے لیے کافی مشکلات پیدا ہونے کا احتمال ہے۔

ہریانہ کے صحافی دیپک یادو کہتے ہیں کہ بی جے پی اب پسماندہ اور درجہ فہرست ذاتوں کو پھسلانے میں لگی ہوئی ہے۔ چار سو سیٹوں کو جیتنے کا دعویٰ کرنے والی جماعت کے بارے میں عوامی سوچ تبدیل ہوچکی ہے اور گرفتاری یا اپوزیشن کی آواز کو محدود کرنے کے حربے اس کے خلاف جا رہے ہیں۔ انڈیا کے لوگ جمہوریت کی آبیاری چاہتے ہیں اور اس کو ختم کرکے ایک پارٹی سسٹم یا پھر صدارتی نظام رائج کرنے پر شاید خود ہندوتوا والے بھی تیار نہیں ہوں گے۔

مودی مقبول رہنما ہیں مگر جمہوریت کے خلاف کسی بھی اقدام کو انڈین ووٹر رد کرتا ہے، جس کی مثال ایمرجنسی کی دی جا سکتی ہے، جب عوام نے ہر دلعزیز رہنما اندرا گاندھی کو بھاری اکثریت سے ہرا کر پیغام دیا کہ جمہوریت پر کوئی بھی حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔

کیجریوال کی گرفتاری پر بیشتر مغربی ملکوں اور امریکہ سے بھی بیانات جاری ہوئے ہیں، جس پر وزارت خارجہ نے بعض ملکوں کی تنبیہ بھی کی ہے۔ البتہ کیجروال کے بارے میں عالمی سطح پر یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ ان میں مودی کو ہرانے کی قابلیت اور سکت موجود ہے۔

 کیجریوال عالمی سطح پر بعض معروف غیرسرکاری اداروں کے ساتھ وابستہ رہے ہیں اور دہلی میں تعلیم ، صحت اور ٹرانسپورٹ سے متعلق کئی منصوبوں پر ان کے ساتھ جڑے رہے ہیں۔

بی جے پی کو کیجریوال سے شاید یہ خطرہ بھی لگ رہا ہے کہ وہ اس کے ہندوتوا کا دوسرا رخ پیش کرتے جا رہے ہیں، جس کو تجزیہ نگاروں نے سافٹ ہندوتوا کی پالیسی قرار دیا ہے۔

 بقول معروف حسن: ’بی جے پی نے ہندوتوا کا پیٹنٹ لے رکھا ہے اور ہندو ووٹ حاصل کرنے کے لیے یہ حربہ آج تک کامیاب رہا ہے، دہلی فسادات کے بعد کیجریوال نے اس پیٹنٹ کو چرانے کی جو پالیسی اپنائی ہے، وہ بی جے پی کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہے، ان کی پارٹی کو تتر بتر کرنے سے ہی بی جے پی انہیں روک سکتی ہے۔‘

31 مارچ کو رام لیلا گراؤنڈ میں اپوزیشن جماعتوں کا میلہ ضرور طے کرے گا کہ کیجریوال کی گرفتاری کے بعد کیا ووٹروں کا موڈ بدل گیا ہے یا بی جے پی کو ہرانے کے لیے کوئی نئی حکمت عملی اپنانی ہوگی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر