تہوار کوئی بھی ہو خواتین کی تیاریاں کئی روز پہلے شروع ہو جاتی ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم پیسوں میں زیادہ سے زیادہ اچھی شاپنگ کر سکیں۔
فیصل آباد میں خواتین کی شاپنگ کے لیے شہر کے دو مراکز سب سے زیادہ مشہور ہیں۔
ان میں سے ایک انارکلی بازار ہے جو کہ تاریخی گھنٹہ گھر سے متصل بھوانہ بازار اور ریگل روڈ کے درمیانی علاقے میں ایک سیدھے بازار اور اطراف کی مارکیٹوں پر مشتمل ہے۔
دوسرا مرکز ستیانہ روڈ جھال پر واقع مدینہ مارکیٹ ہے جو کہ نو نمبر گلی کے نام سے معروف ہے۔
انارکلی بازار میں گذشتہ چھ دہائیوں سے چوڑیوں کا سٹال لگانے والے دکاندار محمد اکرم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب انہوں نے اس کام کا آغاز کیا تھا تو اس وقت ’ماہانہ کرایہ 50 سے 70 روپے تک تھا۔‘
بقول اکرم: ’اس وقت یہاں پر کہیں بھٹیاں لگی ہوئی تھیں، کہیں بھینسیں بندھی ہوتی تھیں۔ کسی نے دکان بنائی ہوئی تھی اور کسی کا گھر تھا۔ آہستہ آہستہ دور بدلتا گیا، دکانیں بنتی گئیں، ویلیو بڑھتی گئی۔ آج یہ حالت ہے کہ یہاں پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں ہے اور ہر ایک کی خواہش ہے کہ میں انارکلی میں دکان بناؤں۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس بازار سے چیز ’اچھی اور پائیدار‘ مل جاتی ہے جس کی وجہ سے خواتین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ’انارکلی بازار سے خریداری کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں پانچ ہزار روپے میں بھی عید کی ساری شاپنگ باآسانی ہو جاتی تھی لیکن اب اتنے پیسوں میں دو، تین چیزیں ہی خریدی جا سکتی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انارکلی بازار کے صدر چوہدری سردار محمد کے مطابق ’بازار میں ہر طبقے کی خواتین کی معیار اور پسند کے مطابق چیزیں دستیاب ہیں۔ یہاں پر تھوڑے بجٹ میں بھی گزارا ہو جاتا ہے اور زیادہ بجٹ سے بھی۔ یہ گاہک پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح کی شاپنگ کرنا چاہتا ہے۔ وہ پانچ سو کی چیز لینا چاہتا ہے یا پانچ ہزار کی یا دس ہزار کی۔ جتنے کی بھی لینا چاہتا ہے وہ مل جاتی ہے۔‘
انجمن تاجران ستیانہ روڈ نو نمبر گلی کے صدر رانا قدیر حسین نے بتایا کہ یہ مارکیٹ 1990 کی دہائی میں بنی تھی اور اس وقت شہر کا سب سے مقبول شاپنگ سنٹر ہے۔
’ادھر تو جتنا بجٹ لے آئیں اتنا ہی کم ہے کیوں کہ مال بہت اچھا ہے اور ورائٹی بہت اچھی ہے۔ یہ معیار کے لحاظ سے ہے کہ جتنی آپ نے چینی ڈالنی ہے، اتنا میٹھا ہونا ہے۔‘
عید شاپنگ میں مصروف ذوالنور نے بتایا کہ وہ عید شاپنگ کے لیے سات ہزار روپے کا بجٹ لے کر بازار آئی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’ابھی انہوں نے چوڑیوں کے دو سیٹ دوہزار روپے میں خریدے ہیں اور اب وہ پریشان ہیں کہ پانچ ہزار روپے میں جوتی اور کپڑے کیسے خریدیں گی۔
’ایک وقت تھا کہ چوڑیاں دو، تین سو روپے تک مل جایا کرتی تھیں اور عید کی شاپنگ چوڑیوں کے ساتھ مکمل ہو جاتی تھی کیوں کہ چوڑیاں سب سے اہم ہیں، لیکن اس وقت یہ کہہ رہے ہیں کہ ہزار روپے کی، دو ہزار روپے کی چوڑیاں ہیں۔‘
ایڈن ویلی کی رہائشی حنا نے بتایا کہ وہ 15 ہزار روپے کا بجٹ بنا کر آئی تھیں لیکن ’چوڑیاں، جوتے اور ایک سوٹ لینے پر ہی 10 ہزار روپے خرچ ہو چکے ہیں۔‘
مہنگائی کی وجہ سے جہاں عید شاپنگ کے لیے آنے والی خواتین پریشان نظر آئیں وہیں دکاندار بھی اس بات پر فکر مند تھے کہ عید سیزن ہونے کے باوجود زیادہ تر گاہک قیمتیں پوچھ کر بغیر خریداری کیے واپس چلے جاتے ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔