پی آئی اے کی نجکاری: بیڈ اینڈ گُڈ فارمولا کیا ہے؟

حکومت پی آئی اے میں 29 سے 51 فیصد شراکت کی خواہشمند ہے یعنی سرمایہ کار اس میں سے جس شرح پر بھی راضی ہوں حکومت انہیں اس شرح پر ایئرلائن کی ملکیت سونپ دے گی۔

پی آئی اے کے طیارے 10 اکتوبر، 2012 کو اسلام آباد کے بے نظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کھڑے ہیں (اے ایف پی/ فاروق نعیم)

حکومت نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے لیے معروف بین الاقوامی پیشہ ورانہ خدمات دینے والی کمپنی ارنسٹ اینڈ ینگ کی خدمات حاصل کی ہیں۔

یہ معروف کمپنی اس معاملے میں حکومت اور متوقع خریداروں کے درمیان معاملات دیکھے گی۔

حکومت پی آئی اے میں 29 سے 51 فیصد شراکت کی خواہش مند ہے، یعنی سرمایہ کار اس میں سے جس شرح پر بھی راضی ہوں حکومت انہیں اس شرح پر ایئرلائن کی ملکیت سونپ دے گی۔

’گُڈ اینڈ بیڈ‘ فارمولا؟

’گُڈ اینڈ بیڈ‘کے فارمولے کے تحت پی آئی اے کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کارپوریشن لمیٹڈ اس معاملے میں ’گُڈ‘ پی آئی اے جبکہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن ہولڈنگ کمپنی ’بیڈ‘ پی آئی اے بنے گی۔

اس تنظیم نو کے تحت نئی تشکیل شدہ ہولڈنگ کمپنی ایئر لائن کی مالی ذمہ داریاں، جس میں پی آئی اے کے قرضے اور واجبات اور اثاثے شامل ہیں، سنبھالے گی۔

بیڈ پی آئی اے یا پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن ہولڈنگ کمپنی

وفاقی کابینہ نے 26 مارچ کو پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کے 11 رکنی بورڈ کی تشکیل کی منظوری دیتے ہوئے سابق گورنر سٹیٹ بینک طارق باجوہ کو اس کا چیئرمین مقرر کر دیا۔

اس کمپنی کے آزاد ڈائریکٹرز کی اکثریت کمرشل بینکوں کے سربراہان کی ہے، جن میں عاطف اسلم باجوہ اور شہزاد دادا بالترتیب بینک الفلاح اور یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کے سربراہان ہیں۔

بورڈ میں شامل سرکاری افسران میں سیکریٹری ایوی ایشن، فنانس، نجکاری اور پلاننگ کمیشن شامل ہیں جبکہ پی آئی اے کے موجودہ سربراہ ایئر وائس مارشل عامر حیات کو کمپنی کا پہلا سربراہ یعنی سی ای او مقرر کیا گیا ہے۔

اس وقت پی آئی اے کے واجبات اور اثاثے کیا ہیں؟

پی آئی اے کی تازہ ترین دستاویزات، جو انہوں نے متعلقہ پارٹیز کو پیش کی ہیں، کے مطابق اس کے کل اثاثے ایک کھرب 71 ارب روپے کے ہیں، جن میں سے ایک کھرب 46 ارب پی آئی اے میں رکھے جائیں گے جبکہ 25 ارب 20 کروڑ نئی تشکیل کردہ ہولڈنگ کمپنی میں منتقل کیے جائیں گے۔

پی آئی اے کے پاس رکھے جانے والے اثاثوں میں 40 ارب کے طیارے ہیں، چار ارب کے ان کے پرزے اور دوسرے سامان کی انونٹری ہے۔ اسی طرح 25 ارب کی سرمایہ کاریاں ہیں جبکہ 16 ارب کے رسیویبلز ہیں۔

اس وقت پی آئی اے کے پاس بینک میں پانچ ارب روپے ہیں جبکہ پی آئی اے کی اندرون ملک اور بیرون ملک جائیدادوں کی تعداد 40 ہے اور ان کی مالیت 25 ارب لگائی گئی ہے۔

ان میں نیویارک اور پیرس کا ہوٹل، بلو ایریا سمیت کراچی لاہور اور دوسرے شہروں میں عمارتیں شامل ہیں۔

پی آئی اے کے ذمے واجبات کیا ہیں؟

دستاویزات کے مطابق پی آئی اے کے ذمے کل قابل ادائیگی واجبات آٹھ کھرب 30 ارب روپے کے ہیں جن میں سے دو کھرب 20 کروڑ کے واجبات پی آئی اے میں رہیں گے جبکہ چھ کھرب 28 ارب کے اثاثے نئی تشکیل کردہ ہولڈنگ کمپنی میں منتقل کیے جائیں گے۔

پی آئی اے طیاروں کی لیز اور کم وقتی مالیاتی ادائیگیاں اپنے پاس رکھے گی۔

پی آئی اے کارپوریشن لمیٹڈ نجکاری کے بعد 56 ارب کی منفی شراکتی حصص میں چلے گی، جس کا مطلب ہے کہ حکومت کو جو بھی 56 ارب سے زیادہ کی بولی لگائے گا وہ پی آئی اے کا مالک بن سکتا ہے۔

دوسری جانب حکومتِ پاکستان چھ کھرب 30 کروڑ کی منفی شراکتی حصص والی ہولڈنگ کمپنی کی مالک بنے گی۔

مگر صرف یہ چھ کھرب کا معاملہ نہیں کیونکہ اس کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کی جائیدادیں اس کمپنی کے حصے میں آئیں گی جن کی اس وقت مالیت اتنی نہیں لگائی جتنی ہے اور اگر درست مالیت لگائی جائے یا انہیں بہتر کر کے فروخت کیا جائے تو ہولڈنگ کمپنی اس منفی شراکت کو مثبت کر سکے گی۔

لیکن ہولڈنگ کمپنی کا ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس سے اگر درست طریقے سے نہ نمٹا گیا تو اس سارے ایڈونچر کے مطلوبہ نتائج نہیں حاصل ہو سکیں گے۔

نئی ہولڈنگ کمپنی کے ذمے جو مالی واجبات ہیں ان میں بینکوں کے قرضے ہیں مگر ان کی سروسنگ یا ادائیگی کے لیے ہولڈنگ کمپنی کے پاس کیش فلو نہیں ہے، یعنی ذریعہ آمدن نہیں ہے تو اسے سود کی ادائیگی کے لیے جو پیسے درکار ہوں گے وہ حکومت ہی دے گی۔

تو ایک طرح سے حکومت جو کام اب کر رہی ہے وہی کام مستقبل میں بھی کرتی رہے گی بلکہ شاید یہ گردشی قرضے کی طرح ایک اور سفید ہاتھی بن جائے۔ اور یوں معاملہ حل ہونی کی بجائے مزید خراب ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکومت نے نئی تشکیل شدہ ہولڈنگ کمپنی کے ذمہ دو کھرب 73 ارب دینے کا وعدہ کیا ہے جن کے اوپر سود کی شرح 12 فیصد پر منجمد کر دی گئی ہے 10 سال کے لیے۔

اس صورت حال میں 10 سال بعد حکومت دو کھرب تہتر ارب کی جگہ 10 سال بعد یہ پانچ کھرب آٹھ ارب ہو جائیں گے۔ یعنی ٹیکس ادا کرنے والی عوام سالانہ 32 ارب روپے کا سود اس مالیاتی بوجھ کی مد میں ادا کرے گی۔ جو کہ 10 سال میں تین کھرب سے زیادہ ہو گا۔

اس ہولڈنگ کمپنی پر اس وقت مزید قرضے لینے پر پابندی ہے جس کی وجہ سے اس کی کل ذمہ داری حکومت کی ہے۔

پی آئی اے کون خرید رہا ہے؟

گذشتہ چند روز سے خبریں گردش میں ہیں کہ قطر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے خواہش مند کاروباری کمپنیاں خریداری کے لیے لائن میں لگی ہیں۔

مگر یہ خبر درست نہیں کیونکہ اطلاعات کے مطابق معاملات عرب امارات کے ایک کاروباری گروپ کے ساتھ ایڈوانس سطح پر پہنچ چکے ہیں مگر اس راہ میں ایک رکاوٹ آڑے ہے اور اگر وہ عبور ہو جاتی ہے تو اس سے مزید پیش رفت اور ڈیل حتمی ہوجائے گی۔

اگر وفاقی حکومت پرائیویٹائزیشن کے قانون میں جی ٹو جی یعنی حکومت سے حکومت ڈیلنگ شامل کر دے گی تو اس کا مطلب ہے کہ مذکورہ اماراتی گروپ پی آئی اے خرید رہا ہے۔

اگر ایسا نہیں ہوتا اور حکومت اس بارے میں ایک کھلا ٹینڈر جاری کرتی ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اماراتی گروپ سے مطلوبہ ڈیل نہیں ہو سکی اور حکومت مزید کاروباری گروپس سے بات کرنا چاہتی ہے۔

اس رپورٹ کے حوالے سے پی آئی اے حکام سے ردعمل جاننے کے لیے متعدد بار رابطہ کیا گیا، تاہم ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت