فرانس کے شہر سٹراسبرگ میں یورپی یونین کی پارلیمان میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی موجودہ صورت حال پر بحث ہوئی، جسے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان کے لیے ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔
آج نیشنل پارلیمنٹیرینز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا: ’گزشتہ شب یورپی پارلیمان میں تنازع کشمیر کو اٹھایا گیا، جو پاکستان کے لیے بڑی کامیابی ہے۔‘
گزشتہ شب ہونے والے یورپی پارلیمان کے اجلاس میں 23 اراکین نے تقاریر کیں، جن میں سے بیشتر نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا جبکہ کچھ نے بھارت کے حق میں بات کی۔
برطانیہ کی کنزرویٹو جماعت اور یورپی پارلیمنٹ کی رکن اینتھیا میک انٹائر نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بھارت جیسی عظیم قوم، جسے اپنی جمہوریت پر فخر ہے، وہ کیسے ایسے اقدامات کر سکتی ہے۔‘
بھارت کے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا رکن بننے کے عزم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا رکن بننا چاہتا ہے مگر اس کی جانب سے پچھلے ایک ماہ کے دوران اٹھائے گئے اقدامات کسی سکیورٹی کونسل کے رکن کے نہیں ہو سکتے۔
برطانیہ کی لبرل ڈیموکریٹ جماعت کے رکن کرس ڈیویز نے یورپی پارلیمنٹ سے سوال کیا کہ ’آخر کب تک صرف باتیں کی جائیں گی، اب عملی قدم کا وقت ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت ایک عظیم جمہوریت ہے مگر یہ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے۔
برطانیہ کی گرین پارٹی کی رکن جینا ڈاؤڈنگ نے مطالبہ کیا کہ بھارتی انتظامیہ کشمیریوں کو بنیادی حقوق فراہم کرے اور یورپی یونین سے بھی مطالبہ کیا کہ اس معاملے پر نظر رکھے۔
برطانیہ کی کنزرویٹو جماعت سے تعلق رکھنے والی بیرونس نوشینا مبارک کا کہنا تھا کہ 70 سالوں سے کشمیریوں کو خود ارادیت کے بنیادی حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ سے سوال کیا کہ ’ہم کب تک خاموش رہیں گے؟‘
کشمیر سے تعلق رکھنے والے برطانوی رکن یورپی پارلیمنٹ شفق محمد نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’یورپی یونین کے ضابطوں کے مطابق خود ارادیت ایک بنیادی انسانی حق ہے اور یورپی یونین کو دوسروں سے اسی معیار کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ خاص کر ان سے جو یورپ کے ساتھ تجارت کرنا چاہتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے یورپی پارلیمنٹ کو پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’یورپی یونین اس معاملے میں فطری طور پر معاونت فراہم کر سکتا ہے، جس کی وجہ سے دونوں فریق آپس میں بات کرسکیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے زور دیا کہ ’کشمیری اندھیرے میں مدد کے لیے پکار رہے ہیں اور یورپی یونین کو اس اندھیرے میں انہیں روشنی فراہم کرنی چاہیے۔‘
ایک طرف جہاں کشمیر میں صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا، وہیں اراکین نے کشمیر کی حمایت میں بھی بات کی۔
برطانوی سیاستدان اور یورپی پارلیمنٹ کے رکن دنیش دھمیجا نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’تنازع کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ نے ریفرنڈم کا کہا تھا مگر اس ریفرنڈم کے نہ ہونے کی وجہ پاکستان ہے کیوں کہ اس وقت پاکستانی فوج لائن آف کنٹرول سے پیچھے نہیں ہٹی تھی۔‘
فرانس سے رکن یورپی پارلیمنٹ جیل لیبغاتون کا کہنا تھا کہ ’کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور کشمیر کا سوال صرف بھارت کو ہی دیکھنا ہے۔‘
سلوواکیا کے رکن یورپی پارلیمنٹ ملان اوہرک نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’یورپی یونین کو بھارت کی سالمیت کا احترام کرنا چاہیے کیونکہ چھ ہزار کلومیٹر دور ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہمارا کام نہیں ہے۔
برطانوی لیبر پارٹی اور یورپی پارلیمنٹ کی رکن نینا گل نے پاکستان پر الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’کشمیر کا تنازع اُس وقت حل ہو گا جب پاکستان کی طرف سے ریاستی دہشت گردی اور غلط خبریں پھیلانے کی عالمی مہم کا خاتمہ ہوگا۔‘
اطالوی رکن یورپی پارلیمنٹ سلویا سارڈونا کا کہنا تھا: ’90 کی دہائی میں ہزاروں بھارتیوں کو بدامنی کی وجہ سے کشمیر سے جانا پڑا۔ ہم ان لوگوں کے بارے میں کیا کر رہے ہیں جو پاکستان کی معاونت سے ہونے والی دہشت گردی سے متاثر ہوئے؟‘
دوسری جانب یورپی پارلیمنٹ میں برطانیہ کی کنزرویٹو جماعت کے لیڈر جیفری وین آرڈن نے کشمیر کی قانونی حیثیت پر بات کرتے ہوئے کہا: ’قانونی طور پر تمام خطہ شروع سے ہی بھارت کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔ مگر اس کے کچھ حصے پر پاکستان نے قبضہ کر لیا۔‘