مشتعل مجمع ہوش و حواس میں نہیں ہوتا

مجمعے کے اشتعال میں ہمیں جو جذبات نظر آتے ہیں۔ اُن میں نسلی تعصّب، مذہبی فرقہ واریت اور غیرمُلکیوں کا عمل دخل شامل ہوتا ہے۔ جو پناہ گزین کی حیثیت سے کسی مُلک میں آ کر آباد ہو جاتے ہیں۔

14 فروری 2006 کو لاہور میں ایک احتجاج کے دوران مشتعل ہجوم نے گاڑیوں کو آگ لگا دی (عارف علی / اے ایف پی)

جب  مجمع مُشتعل ہوتا ہے تو اپنے ہوش و حواس کھو کر توڑ پھوڑ اور قتل و غارت گری میں ملوث ہو کر اپنے غصے کا  اظہار کرتا ہے۔ مُشتعل  مجمعے کے اثرات ہمیشہ منفی ہوتے ہیں اور کسی تبدیلی کا باعث نہیں ہوتے۔

تاریخ کے ہر دور میں حادثاتی طور پر یا کسی واقعے کے نتیجے میں  مجمع مشتعل ہو کر اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرتا ہے۔ جب بھی  مجمع مُشتعل ہوتا ہے یا تو یہ کسی جلسے یا جلوس میں ہوتا ہے؛ جہاں سے اکٹھا ہو کر جذباتی طور پر دہشت گردی کرتا ہے، یا کسی افواہ کے نتیجے میں لوگ ایک جگہ فوری جمع ہو جاتے ہیں اور اپنے اِشتعال کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

رومی عہد میں مورخوں نے مُشتعل مجمے کے بارے میں کئی واقعات لکھے ہیں۔ خاص طور سے انتخاب کے موقع پر اُمیدواروں کے حامیوں اور مخالفوں میں اُس وقت جھگڑے ہو جاتے تھے جب یہ فورم میں ووٹ کے لیے اکٹھے ہوتے تھے۔ اس پر طاقتور امیدوار اپنے حامیوں سے بیلٹ باکس اُٹھوا لیتے تھے۔ مخالفوں کو قتل کرنے کا حکم دیتے تھے۔

ایک موقع پر تقریباً تین ہزار کے قریب ووٹرز قتل ہوئے تھے۔ دوسرا اہم واقعہ وہ تھا جب جولیس سیزر کی لاش کو قتل کرنے کے بعد فورم میں لایا گیا۔ جہاں مجمع جمع ہو گیا تھا۔ جب بروٹس کی تقریر کے بعد مارک اینٹنی نے تقریر کی اور سیزر کی تعریف کی تو  مجمع سیزر کے قاتلوں کے خلاف ہو گیا۔ پہلے اُس نے فوراً ہی سیزر کی لاش کو جلایا اور پھر اُس کے قاتلوں کی جانب چلے تا کہ اُس کو سزا دیں۔ مجمعے کے تیور دیکھ کر قاتل فرار ہو گئے۔

ایک اور اہم واقعہ بازنطینی سلطنت میں جسٹینین کے عہد میں پیش آیا۔ جب دو پارٹیوں کے درمیان فساد ہوا۔ دونوں پارٹیوں کے حامیوں نے مُشتعل ہو کر قسطنطنیہ میں توڑ پھوڑ اور تباہی مچا دی۔ یہاں تک کہ حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔

جسٹینین مجمعے کے خوف سے سلطنت چھوڑ کر فرار ہونا چاہتا تھا۔ مگر اُس کی ملکہ تھیوڈورا نے اُسے روکا۔ فسادات کا خاتمہ کر کے اُس کے اقتدار کو واپس لایا گیا، اور دوبارہ سے اُس کی بادشاہت قائم ہوئی۔

مجمعے کے اشتعال میں ہمیں جو جذبات نظر آتے ہیں۔ اُن میں نسلی تعصّب، مذہبی فرقہ واریت اور غیرمُلکیوں کا عمل دخل شامل ہوتا ہے۔ جو پناہ گزین کی حیثیت سے کسی مُلک میں آ کر آباد ہو جاتے ہیں۔

امریکہ کی سوسائٹی میں یہ تینوں عناصر موجود ہیں۔ اس لیے ماضی میں بھی یہ مجمعے کے اشتعال کے باعث رہے ہیں۔ خاص طور سے افریقی غلاموں کے خلاف جنہیں پہلے تو امریکہ میں زبردستی لایا گیا۔ پھر اُن سے محنت و مشقّت کرائی گئی، اور جِلد کی رنگت کی بنیاد پر اُن سے نفرت کی گئی۔ اُنھیں ذرا سے شک و شبہے پر نہ صرف سزا دی جاتی تھی بلکہ  مجمع اُنھیں پھانسی بھی دے دیتا تھا۔

امریکہ کے ایک جج  Charles Lynch (d. 1796) نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ افریقی غلاموں کا مُقدمہ عدالت میں لانے کی ضرورت نہیں، مجمع خود ہی اِس کا فیصلہ کر لیا کرے۔ چنانچہ اس کے بعد Lynching  کا سلسلہ چلا جس میں  مجمع خود ہی فیصلہ کر کے مُلزم کو اذیت بھی دیتا تھا اور پھانسی پر بھی لٹکا دیتا تھا۔

ایک واقعے میں افریقی غلام کو اِس شبہے میں نظربند کر رکھا تھا کہ اُس نے سفید فام عورت کا ریپ کیا ہے۔ ابھی مقدمہ چلنے بھی نہ پایا تھا کہ سفید فام لوگوں کا مجمع جیل پہنچ گیا۔ قیدی کو جیل سے نکال کر لائے وہ مسلسل کہتا رہا کہ میں بے قصور ہوں مگر اُس کی کسی نے نہ سُنی اور اُسے پھانسی دے دی۔

ایک دوسرے واقع میں ایک افریقی غلام کو قتل کے شُعبے میں قید کر رکھا تھا۔ یہاں بھی سفید فاموں کا  مجمع ایک دن جیل پہنچا۔ جیل سے نکال کر پہلے اُسے لاٹھیوں سے پیٹا پھر اُس کو پھانسی پر لٹکایا۔ اس پر مجمعے میں کسی نے کہا کہ ایسے آگ میں جلاؤ۔ چنانچہ اَلاؤ تیار کر کے اُس کی لاش کو جلایا گیا۔ لوگوں نے اُس جلی ہوئی لاش کی ہڈیوں کو بطور نشانی لے جا کر اس واقعے کی یاد کو محفوظ رکھا۔

امریکہ کی پوری تاریخ میں ہزاروں افریقی غلاموں کو مجمعے نے پھانسی دے کر اپنے نسلی تعصب کا اظہار کیا۔ مگر یہ نفرت اَنگیز واقعات تاریخ میں گُم نہیں ہوئے بلکہ مورخ ان کی کھوج لگا کر ان کو سامنے لا رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یورپ میں اگرچہ چرچ کی جانب سے منحرفین کو زندہ جلایا گیا مگر جب زندہ جلانے کے لیے افراد ہاتھ نہیں آتے تھے تو ان کے پُتلوں کو پبلک میں جلایا جاتا تھا۔ مثلاً  Thomas Paine (d.1809)نے جب اپنی کتاب Rights of Man لکھی تو انگلستان کی حکومت نے اس پر غداری کا مقدمہ چلایا۔ وہ فرار ہو کر فرانس چلا گیا۔ مگر ایک مُشتعل مجمعے نے اس کا پُتلا جلا کر اُس کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ حالانکہ اس کتاب میں اُس نے عوام کے حقوق کی بات کی تھی۔

مُشتعل مجمعے کے حالات کو ہم برّصغیر کی موجودہ تاریخ میں دیکھتے ہیں۔ جب چورا چوری کے مقام پر 1922 میں مجمعے نے پولیس تھانے پر حملہ کر کے اُسے جلا دیا جس میں کچھ پولیس والے بھی مارے گئے۔ اس پر گاندھی جی نے ترک موالات  Non-Cooperation کی تحریک کو ختم کر دیا۔ مُشتعل مجمعے کے قتل و غارت گری کو ہم تقسیم سے پہلے کے فسادات میں دیکھتے ہیں، اور آج بھی ہندوستان اور پاکستان میں مُشتعل مجمعے کی دہشت گردی جاری ہے۔

جس معاشرے میں مجمعے کو آزاد چھوڑ دیا جائے اور اُن کے تعصّبات اور نفرتوں کو ختم نہ کیا جائے تو اس کا سیاسی اور سماجی استعمال بھی ہوتا ہے۔ اسے دانشوروں کے خلاف بھی استعمال کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی تحریر اور تقریر کے ذریعے ریاست اور معاشرے پر تنقید نہ کریں۔ مجمعے کا اشتعال لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے فکر کی آزادی کے سوتے سوکھ جاتے ہیں۔

مجمعے کا اشتعال جذباتی ہوتا ہے۔ اس کے پاس کوئی منصوبہ اور منشور نہیں ہوتا کہ جس کے تحت یہ نظام کو بدلنے کی کوشش کرے۔ یہ توڑ پھوڑ اور قتل و غارت کے ذریعے انتشار پھیلاتا ہے اور سوسائٹی کے امن و امان اور سکون کو برباد کرتا ہے۔

مجمعے کا اشتعال قانون نافذ کرنے والے اداروں کو طاقت دے کر اُس کے ذریعے دوسری تحریکوں کو بھی کچلنے کا باعث ہوتا ہے کہ مُشتعل ہجوم ہمیشہ منفی کردار ادا کرتے ہیں۔

یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ