سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بدھ کو کہا کہ پاکستان فوج خود کو دفاع سے منسلک کاموں تک محدود رکھے اور کاروباری کاموں سے گریز کرے۔
کراچی میں غیر قانونی تعمیرات سے متعلق متفرق درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
کاز لسٹ کے مطابق یہ چھ متفرق درخواستیں ہیں، پہلی درخواست 2017 میں دائر ہوئی تھی جو فلیٹ پر غیر قانونی تعمیرات و قبضوں سے متعلق تھی۔ اس کے علاوہ درخواست گزار کی زمین پر غیر قانونی پلازہ کی تعمیر سے متعلق درخواست بھی شامل ہے۔
آج سپریم کورٹ میں دفاعی زمینوں پر کمرشل سرگرمیوں کے خلاف کیس کی سماعت کےدوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’فوج نے دی گئی زمین پر شادی ہالز اور دیگر کام شروع کر رکھے ہیں، یقین دہانی کرائیں فوج صرف دفاع کا کام کرے کاروبار نہیں۔‘
چیف جسٹس فائز عیسی نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یقین دہانی کرائیں کہ کاروبار نہیں کریں گے تو ٹھیک ہے، سب کو اپنے مینڈیٹ میں رہنا چاہیے، فوج اپنا کام کرے عدالتیں اپنا کام کریں۔‘
اٹارنی جنرل نے جواباً کہا کہ ’اصول تو یہی ہے کہ سب اپنا اپنا کام کریں۔‘
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’اگر آپ کو ایسی ہدایات ہیں تو عدالت کو یقین دہانی کرا دیں۔‘
وکیل متروکہ وقف املاک بورڈ نے عدالت کو بتایا کہ ’جس بلڈنگ سے تنازع شروع ہوا وہ متروکہ وقف املاک بورڈ کی ہے، الاٹیز نے جعلی دستاویزات پر زمین اپنے نام کرکے فروخت کر دی اب وہاں پانچ منزلہ عمارت کھڑی ہے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’پانچ منزلہ بلڈنگ بنتی رہی تب متروکہ املاک بورڈ تماشائی بنا رہا؟‘
چیف جسٹس نے بھی ریمارکس دیے کہ ’سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس سی بی اے) کی ملی بھگت کے علاوہ غیرقانونی تعمیرات ممکن نہیں، ایس سی بی اے کے انسپکٹرز اور اوپر کے افسران کے اثاثے چیک کرانے چاہیے، کراچی کے سب رجسٹرارز کے اثاثوں کا آڈٹ بھی ایف بی آر سے کرانا چاہیے، آمدن سے زائد تمام اثاثوں سے رقم مسمار کی گئی عمارتوں کے رہائشیوں کو ملنی چاہیے، لیکن سندھ حکومت یہ انکوائری کبھی نہیں کرے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’ڈی جی سندھ بلدنگ کنٹرول اتھارٹی عدالت میں موجود ہیں بتائیں کہ ایس سی بی اے میں کتنے انسپکٹرز اور افسران ہیں؟‘
ڈی جی ایس بی سی اے نے جواب دیا کہ ’مجموعی طور پر 1400 ملازمین ہیں جن میں چھ سو بلڈنگ انسپکٹر اور تین سو سینیئر انسپکٹر شامل ہیں۔‘
عدالت نے سماعت کی اختتام پر ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ ’کراچی میں غیرقانونی تعمیرات اور رہائشی عمارتوں کو کمرشل کیا جا رہا ہے، بلڈرز منافع لے کر نکل جاتے ہیں، سندھ بلدنگ کنٹرول اتھارٹی نظریں چرا لیتی ہے، بلڈنگ مکمل ہونے کے بعد ایس بی سی اے مسمار کرنے پہنچ جاتا ہے،
’عمارت مکمل ہونے کے بعد مسمار کرنے سے رہائشیوں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں، تعمیر کے دوران بورڈ آویزاں کرکے بلڈنگ کی منظوری کی تفصیلات درج کی جائیں، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی حالات کو اپنے فائدے کے لیے استعمال نہیں کر سکتی، عمارت تعمیر ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے میں ایس بی سی اے تاخیر نہ کرے۔‘
سپریم کورٹ نے مقدمے کی مزید سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دی۔