پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ٹرین میں ایک پولیس اہلکار کے تشدد کا نشانہ بننے والی خاتون کی لاش ریلوے سٹیشن سے ملی ہے۔
چند روز قبل ایک ویڈیو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر وائرل ہوئی تھی جس میں ایک پولیس اہلکار کو ایک خاتون پر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔
سوشل میڈیا پر زیر گردش ویڈیو میں دیکھا جا سکتا تھا کہ ایک ٹرین میں پولیس اہلکار دو بچوں کے سامنے خاتون کے ساتھ مار پیٹ کر رہا ہے اور وہ خاتون مدد کے لیے پکار رہی ہیں تاہم وہاں موجود مسافروں میں سے کسی نے بیچ بچاؤ کرانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
پولیس حکام نے بتایا ہے کہ اب ان خاتون کی لاش چنی ریلوے سٹیشن جڑانوالہ فیصل آباد سے ملی ہے۔
تھانہ چنی گوٹھ کے اسسٹنٹ سب انسپیکٹر نذیر احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’آٹھ اپریل کی صبح یہ لاش ریلوے ٹریک پر ملی اور اسی روز اس لاش کی شناخت مریم بی بی کے نام سے ہو گئی تھی۔‘
انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ’یہ ان ہی خاتون کی لاش ہے جن پر ریلوے پولیس اہلکار کی جانب سے تشدد کی ویڈیو سماجی رابطوں کی سائٹس پر وائرل ہوئی تھی۔‘
نذیر احمد نے بتایا کہ خاتون پر تشدد سات اپریل کو حیدر آباد سے آنے والی ٹرین ملت ایکسپریس میں پیش آیا تھا جبکہ ان کی لاش آٹھ تاریخ کو چنی گوٹھ ریلوے سٹیشن کے ٹرین ٹریک سے ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ان کے ساتھ بچے بھی تھے جنہوں نے بتایا کہ خاتون نے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگائی جب ان کے اہل خانہ سے بات کی تو معلوم ہوا کہ ان کا ذہنی توازن کچھ ٹھیک نہیں تھا۔‘
A policeman tortures a woman in a moving train in Pakistan.
— Islam (@AqssssFajr) April 12, 2024
Last week I criticized Pakistani Army for torturing these beasts. I'm sorry about that. They deserved something worse than that. pic.twitter.com/S13nFNsdPF
نذیر احمد نے بتایا کہ ’جب پولیس نے لاش قبضے میں لی تو وہ بالکل کٹی پھٹی تھی۔ خاتون کا پوسٹ مارٹم کرا لیا ہے لیکن ابھی اس کی رپورٹ آنا باقی ہے جب رپورٹ آئے گی تو میڈیا کو ان کی موت کی وجہ بتائی جائے گی۔‘
دوسری جانب جان سے جانے والی مریم بی بی کے بھائی محمد افضل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’مجھے تو چنی گوٹھ تھانے سے فون آیا جب میں وہاں پہنچا تو میری بہن کی لاش اور میرے بھائی جو ایک لمبے عرصے سے نشے کی عادت میں پڑ کر گم ہو چکے ہیں کے دو بچے میرے حوالے کر دیے گئے۔ پولیس والے لاش کا پوسٹ مارٹم کرا چکے تھے ابھی رپورٹ نہیں دی۔‘
افضل نے بتایا کہ وہ لاش لے کر جڑانوالہ آگئے اور تدفین کر دی کچھ روز بعد انہوں نے وہ ویڈیو دیکھی جس میں ٹرین کے اندر ان کی بہن پر پولیس اہلکار تشدد کر رہا ہے۔
افضل نے بتایا کہ ’بچوں نے مجھے بتایا کہ پولیس اہلکار میری بہن کو مارتا ہوا کہیں لے گیا اس کے بعد وہ واپس نہیں آئی اور یہ دونوں اکیلے ٹرین سے اترے اور وہاں سے مقامی پولیس نے فون کر کے ہمیں بچوں کی اطلاع دی کہ ہم انہیں سٹیشن سے لے جائیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افضل کا کہنا تھا کہ ان کی بہن مریم سمیت تین بہنیں کراچی میں بیوٹی پارلر کا کام کرتی ہیں۔ وہ عید کرنے کے لیے کراچی سے گھر واپس آ رہی تھیں۔
افضل نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ ان کی بہن کا دماغی توازن خراب تھا: ’اگر اس کا دماغی توازن خراب ہوتا تو وہ دو بھتیجوں کو ساتھ لے کر اتنا لمبا سفر کرتی۔ اسے اس پولیس والے نے ٹرین سے دھکا دیا ہے اسی نے میری بہن کو قتل کیا ہے۔‘
افضل نے یہ بھی بتایا کہ بچوں نے پولیس اہلکار کی مریم پر تشدد کی وجہ یہ بتائی کہ وہ وہاں بیٹھ کر کچھ پڑھ رہی تھیں جس پر ساتھ بیٹھی خاتون نے پولیس والے کو بتایا کہ وہ شور کر رہی ہیں جس پر پولیس اہلکار نے ان پر ہاتھ اٹھا دیا۔‘
انہوں نے صاحب اقتدار سے درخواست کی وہ اس معاملے کو باریکی سے دیکھیں اور اس پولیس اہلکار کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔
پاکستان ریلوے پولیس کے ایک ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمیں بھی آج ہی معلوم ہوا ہے کہ جس خاتون پر تشدد ہوا ہے ان کی لاش ملی ہے۔ آئی جی ریلوے راؤ سردار علی خان نے ڈی آئی جی ساؤتھ عبداللہ شیخ کی سربراہی میں چار رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو تحقیقات کر کے بتائے گی کہ تشدد کے واقعے کے بعد کیا معاملہ پیش آیا تھا۔‘
اس کمیٹی میں ایس پی ریلویز ملتان شاہد نواز، ایس پی سکھر رانا ارسلان اور ایس پی کراچی جاوید خان بھی شامل ہیں۔
واقعے کے رونما ہونے اور لاش ملنے میں وقفے سے متعلق پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں ریلوے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’یہ ضلعی پولیس کی حدود بنتی ہے کیوں کہ ان خاتون نے راستے میں کہیں چھلانگ لگائی ہے اس لیے ہمیں وقت پر معلوم نہیں ہوا۔ اس پر مقامی پولیس کارروائی کرے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی ہر پہلو سے اس معاملے کی تحقیق کرے گی اور خاتون کے ورثا سے بھی پوچھے گی کہ اگر انہوں نے کوئی کارروائی کرنی ہے تو ہم ان سے پورا تعاون کریں گے۔
ترجمان نے بتایا کہ جس ریلوے پولیس اہلکار نے خاتون پر تشدد کیا تھا اسے گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن اس کے بعد وہ ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔
چند روز قبل ایک خاتون کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جن پر ایک ریلوے پولیس اہلکار دو بچوں کے سامنے تشدد کر رہا تھا۔ آئی جی ریلوے نے اس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے حیدرآباد میں تعینات کانسٹیبل میر حسن کو فوری گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا تھا۔
اس واقعے کی ایف آئی آر تھانہ حیدرآباد میں 12 اپریل کو پولیس کی مدعیت میں ہی درج کی گئی تھی جس میں یہ لکھا گیا تھا کہ ایک خاتون ٹرین میں بیٹھی دوسری خواتین سے بد تمیزی کر رہی تھی اور ان کا سامان اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی جس پر پولیس اہلکار کا ان پر ہاتھ اٹھ گیا۔