پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دیرینہ تعلقات دہائیوں پر محیط ہیں اور ہر مشکل معاشی گھڑی میں مملکت کی قیادت پاکستان کی مدد کو پہنچی اور اب ایک بار پھر نظریں سعودی عرب پر ہیں لیکن اس بار امداد کی بجائے پاکستان چاہتا ہے کہ سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے۔
اب جب کہ پاکستان میں ایک نئی حکومت کو وجود میں آئے لگ بھگ چھ ہفتے ہی ہوئے ہیں دونوں ملکوں کے درمیان اعلٰی سطحی رابطوں میں تیزی آئی ہے۔ آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد شہباز شریف ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے اور انہوں نے چار مارچ کو پاکستان کے 24 ویں وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔
بحیثیت وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنا پہلا غیر ملکی دورہ بھی سعودی عرب ہی کا کیا اور سات اپریل کو ان کی ولی عہد محمد بن سلمان سے مکہ مکرمہ میں ہونے والی ملاقات میں دوطرفہ امور خاص طور پر اقتصادی شراکت داری پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
وزیر اعظم کے اس دورے سے قبل سعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے اسلام آباد میں 23 مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر منعقدہ فوجی پریڈ میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی تھی، جس سے دونوں ملکوں کے درمیان سکیورٹی سمیت تمام شعبوں میں گہرے تعلقات کی غمازی ہوتی ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان گہرے روابط کی عکاسی اس سے بھی ہوتی ہے کہ معروف سعودی مذہبی شخصیت اور رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسیٰ نے عیدالفطر پاکستان میں منائی اور انہوں نے اپنا نو روزہ دورہ پیر ہی کو مکمل کیا۔
پاکستان کی موجودہ حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ ملک کی معیشت کو درست کرنا اور معاشی مشکلات پر قابو پانا اس کی ترجیحات میں سب سے اہم ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایک بار پھر پاکستان سعودی قیادت کی طرف دیکھ رہا ہے تاکہ وہ ملک میں معدنیات اور زراعت سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے منصوبوں کو تیزی سے مکمل کرنے میں مدد کرے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ معدنیات ہی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے سلسلے میں بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے میں سعودی عرب ایک ارب ڈالر کا سرمایہ لگانے کا جلد ہی آغاز کرے گا۔ ریکوڈک دنیا میں سونے اور تانبے کے سب سے بڑے ذخائر میں سے ایک منصوبہ ہے جبکہ امکان ہے کہ زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کے مجوزہ منصوبوں کو جلد حتمی شکل دی جائے گی۔
سرمایہ کاری تو اپنی جگہ سعودی عرب گاہے بگاہے پاکستان کی معشیت کو ڈھارس دیتا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2021 میں جب پاکستان کی معیشت مشکلات میں گھری ہوئی تھی اور اس کی زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی آ ئی تھی تو سعودی حکومت نے پاکستان کے مرکزی بینک میں تین ارب ڈالر بطور ڈیپازٹ جمع کرانے پر اتفاق کیا تھا۔
ان ڈپازٹس کی قابل واپسی مدت میں سعودی عرب کی طرف سے دو بار توسیع بھی کی جا چکی ہے جبکہ سعودی عرب پاکستان کو ادھار تیل کی سہولت بھی فراہم کرتا رہا ہے۔
اس کے علاوہ سعودی عرب میں لگ بھگ 27 لاکھ پاکستانی مقیم ہیں جو نہ صرف سعودی عرب کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں بلکہ سالانہ اربوں ڈالر بطور زرمبادلہ بھی پاکستان بھیجتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیرون ملک سے ہر سال پاکستان بھیجنے جانے والے زرمبادلہ کے ذخائر میں سب سے بڑا حصہ سعودی عرب ہی سے آتا ہے۔
گذشتہ ہفتے ہی وزیر اعظم شہبازشریف نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ حال میں جب وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملے تھے تو ’ولی عہد نے کہا تھا کہ پاکستان ان کے دل کے بہت قریب ہے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جب بھی پاکستان پر مشکل وقت آیا سعودی عرب نے دل کھول کر پاکستان کا ساتھ دیا۔ اس وقت ملک کے معاشی حالات ظاہر کرتے ہیں پاکستان کا مشکل وقت ابھی ختم نہیں ہوا اور سعودی عرب کو اب کی بار بھی دل کھول کر ہی پاکستان کا ساتھ دینا ہو گا۔