عالمی دفاعی اخراجات میں مسلسل اضافہ جاری، جنوبی ایشیا میں انڈیا پہلے نمبر پر: رپورٹ

سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سپری) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ دفاعی اخراجات کرنے والے ممالک میں امریکہ، چین، روس، انڈیا اور سعودی عرب شامل ہیں۔

دنیا میں مسلسل نویں سال عالمی دفاعی اخراجات میں اضافہ ہوا ہے جو 2023 میں مجموعی طور پر 24.43 کھرب ڈالرز تک جا پہنچا ہے۔  

2023 میں عالمی دفاعی اخراجات 6.8 فیصد بڑھے جو کہ 2009 کے بعد سے سال بہ سال اضافے کی مد میں سب سے بڑا اضافہ تھا۔

سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسیرچ انسٹیٹیوٹ (سپری) کی جانب سے  پیر کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق عالمی دفاعی اخراجات میں اضافے کو یوکرین، ایشیا، اوشیانا (بحر الکاہل سے ملحقہ خطہ) اور مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی سے جوڑا جا سکتا ہے۔

تاہم اگر کسی ایک خطے کی بات کی جائے تو دفاع پر سب سے زیادہ اضافہ افریقہ میں دیکھا گیا جو 2022 کے مقابلے میں 22 فیصد زیادہ تھا۔ 

رپورٹ کے مطابق دفاع پر سب سے زیادہ اخراجات کرنے والے پانچ ممالک مندرجہ ذیل رہے:

  1. امریکہ: جس نے 9.16 کھرب ڈالرز خرچ کیے۔
  2. چین: جس نے 2.96 کھرب ڈالرز خرچ کیے۔
  3. روس: جس نے 1.09 کھرب ڈالرز خرچ کیے۔
  4. انڈیا: جس نے 8.36 ارب ڈالرز خرچ کیے۔
  5. سعودی عرب: جس نے 7.58 ارب ڈالرز خرچ کیے۔

سپری کے مطابق 2022 میں بھی یہی ممالک بالترتیب پہلے پانچ ممالک کی فہرست میں شامل تھے۔

2023 کے اعداد و شمار کے مطابق ان پانچ ممالک نے مجموعی طور پر دنیا کے 60 فیصد دفاعی اخراجات کیے۔ جس میں امریکہ کا تنہا 37 فیصد، چین کا 12 فیصد، روس کا 4.5 فیصد، انڈیا کا 3.4 فیصد اور سعودی عرب کا 3.1 فیصد حصہ شامل ہے۔

پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

سپری کی جانب سے کی جانے والی عالمی درجہ بندی کے مطابق پاکستان گذشتہ ایک دہائی کے مقابلے میں دفاع پر اخراجات کی مد میں کم ترین سطح پر کھڑا ہے۔

رپورٹ کے مطابق مالی سال 2023-24 میں پاکستان نے دفاع پر 8.5 ارب ڈالرز خرچ کیے۔ جو 2014 سے 2023 (دس سالوں کی) اوسط کے مطابق منفی 13 فیصد بنتی ہے۔

اگر پاکستان کی جی ڈی پی میں دفاعی بجٹ کے حصے کی بات کی جائے تو 2014 میں یہ 3.1 فیصد تھی جو 2023 میں 2.8 فیصد رہ گئی ہے۔

2022 میں پاکستان دفاعی اخراجات کی عالمی درجہ بندی میں 24ویں نمبر پر تھا جو اب 30ویں نمبر پر موجود ہے۔

تجزیہ کار زاہد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’میں نے سپری کی رپورٹ نہیں دیکھی لیکن اگر 10 سال میں واقعی منفی 13 فیصد اوسط کمی واقع ہوئی ہے تو یہ کافی حیران کن بات ہے۔‘

زاہد حسین نے کہا کہ ’پاکستان میں دفاعی اخراجات کے لیے مختص فنڈز کا بڑا حصہ خفیہ رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گذشتہ دس سالوں میں افراطِ زر تقریباً 36 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اگر اسے پیش نظر رکھا جائے تو شاید یہ منفی 13 فیصد کا تاثر زائل ہو جائے کیوں کہ مجموعی دفاعی بجٹ میں تو بحرحال اضافہ ہوا ہے۔‘

زاہد حسین نے پاکستان کو بطور ایٹمی طاقت کم سے کم دفاعی بجٹ کی ضرورت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ طے کرنا مشکل ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت تو ہے لیکن دفاعی بجٹ کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ کی سرحدیں کتنی محفوظ ہیں۔ پاکستان کی مشرقی سرحد پر انڈیا کے ساتھ تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے۔

مغربی سرحد پر افغانستان موجود ہے جس پر پاکستان کی ریاست کا موقف ہے کہ شدت پسند کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اسی طرح مغربی سرحد پر ایران کے ساتھ ہمارا کوئی دیرینہ تنازع تو نہیں لیکن گذشتہ دو سال میں وہاں پر بھی فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔ ایسے میں ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ روایتی ہتھیار بھی تیار رکھنے کی ضرورت موجود ہے۔‘

انڈٰیا کی دفاعی ضرورت

انڈیا عالمی درجہ بندی میں 83.6 ارب ڈالرز کے دفاعی اخراجات کے ساتھ 2023 میں عالمی سطح پر چوتھے، ایشیا میں تیسرے نمبر پر اور جنوبی ایشیا میں پہلے نمبر پر رہا۔

عالمی دفاعی اخراجات میں انڈیا کا شیئر 3.4 فیصد رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈین میری ٹائمز فاؤنڈیشن کے نائب صدر کموڈور ریٹائرڈ انیل جے سنگھ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا کو ضرورت ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے یہ اخراجات کرے۔ تاہم انڈیا اپنی قومی ترقیاتی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے توازن کے ساتھ یہ دفاعی اخراجات کر رہا ہے۔‘

انڈیا کی دفاعی ضروریات کو واضح کرتے ہوئے سنگھ نے بتایا کہ ’انڈیا کو سرحدوں پر دو متحرک خطروں کا سامنا ہے۔ شمال میں چین اور مغرب میں پاکستان۔ یہ دونوں ایٹمی طاقتیں اور گذشتہ کئی سال سے انڈیا کے ساتھ الجھتے آئے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس کے علاوہ انڈیا کو بحری راستوں کی حفاظت اور اندرونی خطرات کا بھی سامنا ہے جس کے لیے روایتی ہتھیار اور ایک بڑی فوج درکار ہے۔‘

ساؤتھ ایشین سٹرٹیجک سٹڈیز سٹیبیلیٹی انسٹیٹیوٹ کی چیئرپرسن ماریہ سلطان انڈیا کو مشرقی سرحد پر درپیش خطرے کے موقف سے متفق نہیں۔

ماریہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'پاکستان سکیورٹی تضاد کی بجائے معاشی استحکام پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ریاست کی سطح پر یہ کوشش جاری ہے اور اس کی مثال گذشتہ کچھ عرصے سے بین الاقوامی تعلقات پر پاکستانی وزرائے اعظم اور آرمی چیفس کے وہ بیانات ہیں جن میں قیام امن کے اشارے موجود ہیں'۔

ماریہ نے مزید کہا کہ 'سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کا قیام اور آرمی چیف کا اس میں عملی کردار بھی اس کی ایک واضح مثال ہے کہ اب پاکستان کی ترجیحات کیا ہیں'۔

تاہم انہوں نے کہا کہ انڈیا اپنے سرحدوں پر خطرے کو دیکھتا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ انڈیا فیصلہ سازوں نے کرنا ہے'۔

ماریہ نے انڈیا کی جانب سے دفاعی بجٹ کی کھپت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 'انڈیا کے زیادہ اخراجات میک ان انڈیا پراجیکٹ پر آ رہے ہیں'۔ ان کا اشارہ انڈیا کی دفاعی صنعت کی جانب تھا جس میں ہتھیار اور دفاعی ٹیکنالوجی انڈیا میں تیار کی جا رہی ہے۔

ماریہ نے بتایا کہ 'ایسی صنعتیں زیادہ تر مشترکہ پراجیکٹس ہیں اور امریکن کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری پر کھڑے ہوئے ہیں۔ ان پر خرچ ہونے والا پیسہ بالآخر امریکی معیشت کو چلانے میں لگ رہا ہے'۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'گمان کیا جا سکتا ہے کہ انڈیا کو چین کے مقابلے میں کھڑا کیا جا رہا ہے'۔

مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک

2023 کے آخر سے مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک میں تنازعات کی نئی لہر موجود ہے۔

ان میں سب سے بڑا اور اہم تنازع فلسطین کا ہے۔ اس کے علاوہ ایران اور اسرائیل کے ایک دوسرے پر جوابی حملوں نے بھی خطے میں امن و امان کی صورت حال کو مزید خراب کیا ہے۔

سپری کی رپورٹ کے مطابق 2023 میں خلیجی ممالک اور مشرق وسطیٰ میں دفاع پر سب سے زیادہ اخراجات کرنے والے ممالک مندرجہ ذیل رہے:

  1.  سعودی عرب: جس نے 75.8 ارب ڈالرز خرچ کیے اور عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر رہا۔
  2. اسرائیل: جس نے 27.5 ارب ڈالرز خرچ کیے اور عالمی درجہ بندی میں 15ویں نمبر پر رہا۔
  3. ایران: جس نے 10.3 ارب ڈالرز خرچ کیے اور عالمی درجہ بندی میں 26ویں نمبر پر رہا۔
  4. کویت: جس نے 7.8 ارب ڈالرز خرچ کیے اور عالمی درجہ بندی میں 32ویں نمبر پر رہا۔
  5. عمان: جس نے 5.9 ارب ڈالرز خرچ کیے اور عالمی درجہ بندی میں 37ویں نمبر پر رہا۔  

مشرق وسطیٰ میں 2023 میں دفاعی اخراجات میں مجموعی طور پر نو فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

سپری کی رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے دفاعی بجٹ میں تنہا 24 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ غزہ میں جاری جنگ ہے۔

مستقبل کیسا ہو گا؟

سپری کی رپورٹ میں تین خطے دفاعی اخراجات کے حوالے سے نمایاں ہیں جن میں یورپ، مشرق وسطیٰ اور افریقہ شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق یورپ میں یوکرین اپنی جی ڈی پی کا 37 فیصد دفاع پر لگا رہا ہے۔

افریقہ میں الجیریا اور جنوبی سوڈان اپنی جی ڈی پی کا بالترتیب 8.2 فیصد اور 6.3 فیصد دفاع پر لگا رہے ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور اسرائیل اپنی جی ڈٰ پی کا بالترتیب 7.1 فیصد اور 5.3 فیصد دفاع پر خرچ کر رہے ہیں۔

ماریہ سلطان کے مطابق 'یہ واضح نشانی ہے کہ دنیا کی تین عالمی طاقتوں میں تضادات اور تنازعات ناگزیر ہیں۔ ان میں امریکہ، روس اور چین شامل ہیں۔ البتہ اس کی پروکسیز مختلف ہوں گی'۔

انہوں نے کہا کہ 'یورپ جو کم از کم سرد جنگ کے بعد سے دفاعی اخراجات پر زیادہ توجہ نہیں دے رہا تھا اب یوکرین جنگ کی وجہ سے پھر سے دفاع پر سرمایہ لگا رہا ہے'۔

ماریہ سلطان کے مطابق اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں تنازعات جاری رہیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا