ضمنی انتخابات بخیر و خوبی انجام پا ہی گئے۔ انتخابات عام ہوں یا ضمنی ان سے پہلے میڈیا یا سوشل میڈیا کا جائزہ لیں تو ایسا لگے گا جیسے انقلاب کی راہ میں واحد رکاوٹ بس یہی انتخابات ہیں۔
اس بار بھی معاملہ مختلف نہیں تھا۔ نتائج پر نظر دوڑائیں تو ن لیگ انتخابی سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کرتے نظر آئی جبکہ نتائج تحریک انصاف کے توقعات کے برعکس آئے۔
ہر انتخابات کی طرح اس بار بھی دھاندلی کا شور ضرور مچا لیکن یہ شور اور مبینہ دھاندلی کے ثبوت آٹھ فروری کے مقابلے میں کافی حد تک کم نظر آئے۔ یہ نہیں کہ ضمنی انتخابات مکمل شفاف تھے (اور کاش یہ جملہ صحافتی کیرئیر میں لکھنے کو مل ہی جائے) لیکن آزاد تجزیہ کار اور الیکشن پر نظر رکھنے والے ماہرین کی زیادہ تعداد کی رائے یہی ہے کہ ضمنی انتخابات نسبتاً شفاف تھے۔
ان انتخابات میں تحریک انصاف کو توقع کے برعکس نتائج نہ ملنے کی ایک یہ بھی ہے کہ آٹھ فروری کے مقابلے میں پی ٹی آئی کا چارجڈ ووٹر اور سپورٹر کم ہی نظر آیا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جب ووٹر یہ سمجھ جائے کہ ان کے ووٹ سے کیا فرق پڑے گا تو وہ ووٹ ہی کیوں ڈالے؟
ان انتخابات میں ضلع باجوڑ پختونخوا کا ایک قومی اور ایک صوبائی حلقہ ایسا ہے جس نے سیاسی پنڈتوں اور تجزیہ کاروں سمیت پورے سیاسی نظام کو بجلی نما جھٹکا دیا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تحریک انصاف پختونخوا کی مقبول ترین جماعت ہے اور وہاں ان سے الیکشن جیتنا خصوصاً جب حکومت ہی پی ٹی آئی کی ہو، انتہائی مشکل ہے، لیکن باجوڑ کے نتائج نے انہونی ہی کر دی۔ وہاں قومی اور صوبائی دونوں حلقوں سے تحریک انصاف کے امیدواروں کو آزاد امیدوار مبارک زیب نے حیرت انگیز شکست دی۔
مبارک زیب کے بھائی ریحان زیب آٹھ فروری کے انتخابات میں باجوڑ سے ہی قومی اسمبلی کے انتخابات آزاد حیثیت میں لڑ رہے تھے کیونکہ تحریک انصاف نے انہیں ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ نومئی سے پہلے اور بعد میں قید و بند برداشت کرنے والے ریحان زیب عمران خان کی جانب سے وعدے کے باوجود مقامی قیادت کی جانب سے ٹکٹ نہ ملنے پر دلبرداشتہ ہو کر آزاد الیکشن لڑ رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس دوران طاقت پیسے اور موروثیت کے بل بوتے پر سیاست کے خلاف ان کی تقاریر کافی مقبول ہوئیں لیکن الیکشن سے چند دن پہلے وہ ایک قاتلانہ حملے میں جان سے چلے گئے، جس کے بعد باجوڑ میں انتخابات ملتوی ہو گئے۔
ضمنی انتخابات میں ریحان زیب کے بھائی مبارک زیب نے قومی اور صوبائی دونوں نشستوں سے انتخابات لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کے ٹکٹ کے لیے درخواست دی لیکن مقامی قیادت اور عوامی مقبولیت کے باوجود ان سے باثر اور اثررسوخ رکھنے والے امیدواروں کو ٹکٹ دے دیا گیا۔
اس دوران مبارک زیب نے ایک ٹی وی انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ انہیں الیکشن نہ لڑنے کے عوض پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے سات کروڑ روپے اور نوکری آفر کی اور جب وہ نہ مانے تو انہیں ڈرایا دھمکایا بھی گیا، لیکن انہوں نے الیکشن سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا، اور ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی قیادت کو دھچکا دیتے ہوئے انہوں نے قومی اور صوبائی دونوں نشستیں اپنے نام کر لیں۔
ہماری سیاسی جماعتوں اور فرسودہ سیاسی نظام کے لیے اس ضمنی الیکشن کا سب سے حیرت انگیز اور سبق آموز نتیجہ باجوڑ کے انتخابات ہی تھے۔
باجوڑ سے مبارک زیب کی جیت اس فرسودہ سیاسی نظام کی شکست ہے جہاں الیکشن صرف اور صرف پیسے، پاور اور موروثیت کا کھیل بن چکا ہے۔ یہی نظام پہلے تو ریحان زیب جیسے ایک غریب، محنتی اور ٹیلنٹڈ ورکر کو نگل گیا جس کے قاتلوں کا پی ٹی آئی ہی کی حکومت میں آج تک کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا-
پھر جب اس کے قتل کے بعد اس کا بھائی ریحان زیب میدان میں اترا تو اسے الیکشن سے دستبردار کروانے کے لیے دھمکیاں دی گئیں، لالچ دی گئی، لیکن داد دینی پڑی گی باجوڑ کے باشعور عوام کو جنہوں نے اپنے ووٹ کی طاقت سے فرسودہ سیاسی نظام کو جھنجھوڑ دیا۔
یہ سبق صرف تحریک انصاف کے لیے نہیں جن کا دعوی ملک میں ووٹ کی طاقت سے حقیقی انقلاب برپا کرنا ہے، بلکہ ان تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ہے جن کی صفوں میں ایک عام ٹیلنٹڈ ورکر کا آگے آنا اب معیوب ہو چکا ہے۔
عام انتخابات سے لے کر سینیٹ تک میں امیدواروں کا انتخاب کرنے میں جن عوامل کا کردار ہے اگر سیاسی جماعتوں نے اس پر توجہ نہ دی تو ان کو عوام کی جانب سے جھٹکوں کے لیے خود کو تیار کرنا پڑے گا۔
یہ بات درست ہے کہ ریحان زیب کا تعلق بھی تحریک انصاف سے ہی تھا لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس نے اس فرسودہ سیاسی نظام کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے تحریک انصاف اور عمران خان ہی کے نامزد کردہ امیدواروں کو بری طرح شکست دی ہے۔
پی ٹی آئی کو بھی یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اب عوام صرف انقلاب کے دعوے نہیں بلکہ میرٹ پر مبنی ایسا نظام چاہتے ہیں جہاں پیسے، طاقت اور اثر و رسوخ کے بل بوتے پر آنے والوں کی بجائے ریحان زیب جیسی عوام کی حقیقی آوازیں گونجیں۔
ورنہ عمران خان ہوں، نواز شریف، بلاول بھٹو یا پھر مولانا فضل الرحمٰن سب کے ’انقلاب‘ کی اصلیت کو عوام باجوڑ کے نتائج کے جھٹکے کی صورت میں سامنے لاتے رہیں گے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔