گلگت بلتستان کے مختلف دور افتادہ علاقوں میں اس دورِ جدید میں اب بھی زو (گائے کی ایک قسم) کے ذریعے کاشت کاری کی جا رہی ہے۔
سردیوں کے چار مہینے یہاں زمین ناقابل کاشت رہتی ہے اور فروری کے آخر اور اوائل اپریل میں دوبارہ کاشت کاری شروع ہوجاتی ہے۔
تاہم بالائی علاقوں جیسے طورمک اور روندو میں روایتی طریقہ کارشت کاری رائج ہے یعنی دو نر گائے (زو) کے ذریعے روایتی ہل کے ذریعے کاشت کاری کی جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقامی کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ جدید مشینری کی بجائے زو کے ذریعے ہل چلانے سے زمین نرم رہتی ہے جس کی وجہ سے فصل زیادہ آنے کے امکانات ہوتے ہیں۔
زو گائے کی نر نسل ہے اور اس کے دونوں سینگ بڑے بڑے ہوتے ہیں۔ ماضی میں ہر گھر میں زو پالا جاتا تھا لیکن اب مشینری کی وجہ سے نر گائے پالنے کی روایت دم توڑ رہی ہے۔
مقامی کاشت کاروں کے مطابق ایک زو پالنے کے لیے سالانہ 20 سے 25 ہزار روپے کی لاگت آتی ہے۔
پہاڑی علاقے ہونے کی وجہ سے سے بلتستان میں اکثر کھیت سیڑھی نما ہوتے ہیں جہاں میشنری نہیں پہنچائی جا سکتی، اس لیے لوگ زو کے ذریعے کاشت کاری کرتے چلے آ رہے ہیں۔
ہادی نامی ایک کسان تقریباً 30 سے 35 سالوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ایک زو کو چار سال کی عمر میں باقاعدگی سے ٹریننگ دی جاتی ہے اور اسے 15 سے 16 سال تک استعمال کیا جاتا ہے۔