عدالتی امور میں مبینہ مداخلت سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ انٹیلی جنس ادارے اگر کچھ کرتے ہیں تو اس کے ذمہ دار وزیر اعظم اور ان کی کابینہ ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ عدلیہ کے کام میں مداخلت اندر اور باہر دونوں سے ہو سکتی ہے یہ کام انٹیلیجنس ایجنسیاں اور آپ کے ساتھی دونوں کر سکتے ہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ ملک میں اس سلسلے میں قانون سازی نہ ہونا بھی ایک مسئلہ ہے۔
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ بھی واضح نہیں کہ قانون سازی سے بھی کوئی فرق پڑے گا یا نہیں۔
منگل کو سماعت میں چیف جسٹس قاضی فائر عیسی نے ریمارکس دیے کہ ’ملک میں بہت زیادہ تفرقہ ہے اور شاید لوگ عدلیہ کی آزادی سے زیادہ اس بات میں دلچسپی لیتے ہیں کہ ان کا مخصوص نظریہ عام ہو۔ یہ بڑا مایوس کن امر تھا جب سابق چیف جسٹس پر حملے شروع ہوئے اور وہ کمیشن کے ساتھ اپنا کام جاری نہیں رکھ سکے۔ اور جب یہ حملے ہمارے اندر سے ہوتے ہیں تو یہ اچھی بات نہیں ہے۔‘
بعد میں مقدمے کی سماعت سات مئی تک ملتوی کر دی گئی۔
سپریم کورٹ نے حکم نامے میں میں کہا کہ پانچ ہائی کورٹس نے اور پاکستان بار کونسل نے اپنی تجاویز بھی جعع کروائیں، مناسب ہو گا بار ایسویسی ایشنز اور بار کونسلز متفقہ طور پر کوئی جواب جمع کرائیں، جن نکات پر اتفاق نہ ہو ان کو الگ دائر کیا جاسکتا ہے۔
حکم میں مزید کہا گیا کہ کوئی تجاویز جمع کرانا چاہے کرا سکتا ہے، اٹارنی جنرل الزامات کا جواب یا تجاوز دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، اگر کوئی خفیہ ادارے کا نام آیا اور وہ جواب جمع کرانا چاہے تو اٹارنی جنرل کے ذریعے کرا سکتا ہے۔
فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر حکومت نے کیا ایکشن لیا؟ چیف جسٹس
اس سے قبل چیف جسٹس نے پشاور ہائی کورٹ کی تجاویز سننے کے بعد اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’پشاور والے جج صاحبان کہہ رہے ہیں اگر دھرنا فیصلے پر عمل درآمد ہو گیا ہوتا تو مداخلت نہ ہوتی، اب آپ بتانا پسند کریں گے کہ اس فیصلے کے خلاف کس کس نے نظرثانی درخواستیں دائر کیں۔
’اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اندرونی مداخلت کیسے ہوتی ہیں۔ چار سال سے زائد نظرثانی سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں ہوئی، کوئی وضاحت ہے کہ کیوں تقریباً پانچ سال سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی، کیا اس کے لیے بھی ایگزیکٹو ذمے دار ہے؟ یہاں پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ سب سے پہلا کام قانون سازی ہے، پارلیمنٹ کیوں نہیں کر رہی؟‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’کون سا مقدمہ کل دائر ہو اور آج لگ جائے، کون سا کیس پندرہ سال نہیں لگنا، کون سا کیس کس بینچ کے سامنے لگنا ہے، یہ بھی مشکل ہے، عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار ہمیں عدالتی آرڈر کے ذریعے بینچ سے علیحدہ کیا گیا، دھرنا کیس میں پہلی بار میں نے لکھ کر دیا کہ جسٹس فیض حمید اس کے پیچھے ہیں، لیکن اس پر حکومت نے کیا کیا؟‘
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ دھرنا ’ایک لینڈ مارک ججمنٹ تھی، حکومت نے حقیقت میں اس فیصلے کو بے اثر کر دیا۔ انٹیلی جنس ادارے وزیر اعظم کے ماتحت ہوتے ہیں، انٹیلی جنس ادارے کچھ کرتے ہیں تو اس کے ذمہ دار وزیراعظم اور ان کی کابینہ ہے، آئین دیکھ لیں کچھ بھی آزادانہ نہیں ہوتا۔
’ہمیں اپنی آرمڈ فورسز کی شبیہ بھی برقرار رکھنا ہے، یہ ہماری ہی مسلح افواج ہے جو ملک کے محافظ ہیں، یہ ہمارے فوجی ہیں جو ملک کا دفاع کرتے ہیں۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ’آپ نے پچھلی سماعت پر کہا کہ 2017/18 میں سیاسی انجینئرنگ ہو رہی تھی اس وقت حکومت میں کون تھا؟‘
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔‘ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ وہ حکومت بے بس تھی؟‘
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ’انٹیلی جنس ایجنسی ادارے کس قانون کے تحت وجود میں آئے ہیں اور اگر مداخلت کرتے ہیں تو ان کے خلاف کیا ایکشن لیا جا سکتا ہے۔‘
’اگر عدلیہ اپنے دروازے نہ کھولے تو دباؤ نہیں آئے گا‘
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’سچ سب کو پتہ ہوتا ہے لیکن بولتا کوئی نہیں۔ جو بولتے ہیں ان کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے جو چھ ججز کے ساتھ ہو رہا ہے، پریشر کبھی بھی نہیں ہوگا۔ اگر عدلیہ اپنے دروازے نہ کھولے، جب کوئی جج بولتا ہے اس کے خلاف بدنام کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے۔
’جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا اتنا بڑا فیصلہ آیا حکومت نے کیا کیا؟‘ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’اس میں کئی سابق ججز بھی ملوث ہیں۔‘ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو بھی ملوث ہو، اگر سابق چیف جسٹس بھی ملوث ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی کریں۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’جو دروازے کھولتے ہیں ان کے خلاف مس کنڈکٹ کا کیس ہونا چاہیے، سب جج چیف جسٹس کی طرح جرات مند نہیں۔ کچھ میرے جیسے بھی ہوتے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’لوگ تو انتہا پر چلے جاتے ہیں کہ فلاں کو سزا دو فلاں کو سزا دو کم از کم اقرار ہی کر لو، ہم نے تو اقرار کر لیا اب حکومت کی ذمے داری ہے، بیوروکریسی کو بھی فون آتے ہیں کچھ کام کر دیتے ہیں کچھ نہیں کرتے، جو نہیں کرتے او ایس ڈی بنا دیے جاتے ہیں۔‘
جسٹس نعیم اختر نے کہا کہ ’ملک میں تین ایجنسیاں ہیں، آئی بی ہوئی، آئی ایس آئی اور ایم آئی کس قانون کے تحت بنی؟ ہمیں آئندہ سماعت پر ان ایجنسیوں کے قانون بتایئے، یہ ایجنسیاں کس قانون کے تحت کام کرتی ہیں؟‘
’مرضی کے فیصلے نہ ملنے پر پشاور ہائی کورٹ کو افغانستان سے دھمکیاں موصول ہوئیں‘
اٹارنی جنرل نے پشاور ہائی کورٹ کی تجاویز بھی پڑھ دیں۔ تجاویز میں سیاسی مقدمات میں مداخلت کا ذکر تھا اور کہا گیا کہ مداخلت ہوئی مرضی کے فیصلے نہ ہونے پر افغانستان سے دھمکیاں آئیں۔ پشاور ہائی کورٹ ججز کی تجاویز میں فیض آباد دھرنا فیصلے کا بھی ذکر کیا گیا۔
بلوچستان ہائی کورٹ کے جواب میں اکبر الہ آبادی کے شعر کا حوالہ دیا گیا جس میں کہا گیا کہ ’ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام، وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اٹارنی جنرل آپ نے تین ہائی کورٹس کا پڑھا تینوں کہہ رہے مداخلت ہے۔‘
یف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’عدلیہ کے کام میں مداخلت اندر اور باہر دونوں سے ہو سکتی ہے، انٹیلیجنس ایجنسیوں سے بھی ہو سکتی ہے اور آپ کے ساتھیوں بھی کر سکتے ہیں، خاندان کے لوگ بھی کرسکتے ہیں اور سوشل میڈیا بھی کر سکتا ہے اور کوئی اور بھی کر سکتا ہے۔ ہمیں اپنے عمل سے ظاہر کرنا ہے کہ مداخلت ہوئی یا نہیں۔‘
چیف جسٹس نے سماعت کے آغاز میں کہا کہ ’میں سپریم کورٹ کی تاریخ کے لیے ذمہ دار نہیں، جب سے چیف جسٹس بنا ہوں تب سے ذمہ دار ہوں، سب سے پہلے فل کورٹ اجلاس بلایا جو کافی عرصے سے نہیں بلایا گیا تھا، کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ہم عدلیہ کی آزادی کی خفاظت کریں گے، ہم اس طرف یا اس طرف نہ کھینچیں، یہ بھی عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہے۔‘
سپریم کورٹ نے ہائی کورٹس کی بھجوائی تجاویز پبلک کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ’ہر چیز ہی میڈیا پر چل رہی ہے تو ہم بھی پبلک کر دیتے ہیں۔‘
اس کے بعد اٹارنی جنرل روسٹرم پہ آ گئے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے بھیجی جانے والی تجاویز پڑھ کے سنائیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا ’جو نکات بتائے گئے ان پر آئین کے مطابق ہائی کورٹ خود اقدامات نہیں کر سکتا؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ بالکل تمام نکات پر خود اقدامات کر سکتا ہے۔‘
اس پہ چیف جسٹس نے کہا کہ ’تو پھر کیا سپریم کورٹ ہائی کورٹس کو ہدایات دے سکتی ہے۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے اس موقعے پہ کہا کہ ’ہمیں ہائی کورٹ کی بھجوائی ہوئی تجاویز کو سراہنا چاہیے، کوئی رسپانس نہیں ہو گا تو ججز بے خوف نہیں ہوں گے، ہمیں اس نکتے کو دیکھنا چاہیے جو ہائی کورٹ ججز اٹھا رہے ہیں۔‘
جسٹس اعجازاسحاق خان نے اضافی نوٹ بھی تجاویز کے ساتھ جمع کرایا تھا، جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو وہ نوٹ بھی پڑھنے کا کہا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ’ہمیں ہائی کورٹس کی تجاویز تک ہی محدود رہنا چاہیے ہر کسی کی بھیجی چیزوں پر نہیں۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے جواباً کہا کہ ’اٹارنی جنرل ججز کو سراہنے کے لیے اسے آن ریکارڈ پڑھ دیں، ججز جو کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ مداخلت ایک مسلسل جاری معاملہ ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم نے ہائی کورٹ کے کام میں مداخلت نہیں کرنی، ماضی میں ہائی کورٹس کے کام میں مداخلت کے نتائج اچھے نہیں نکلے، ملک میں بہت زیادہ تقسیم ہے، لوگ شاید عدلیہ کی آزادی نہیں چاہتے، سابق چیف بھی کمیشن کا سربراہ بنے ان پر ہم میں سے بھی لوگوں نے دباو ڈالا، پارلیمنٹ کا شکر گزار ہوں جس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنائے۔‘
جسٹس اطہر من اللہ اس موقع پر اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کہہ رہے ہیں کہ مداخلت تسلسل کے ساتھ ہوتی ہے، کیا اسلام آباد ہائی کورٹ کی تجاویز متفقہ ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہاں بظاہر متفقہ نظر آرہی ہیں۔‘
اطہر من اللہ نے کہا کہ ’اس کا مطلب ہے کسی جج نے اختلاف نہیں کیا۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’لاہور ہائی کورٹ کی گزارشات سے میں سمجھا ہوں کہ مداخلت ایک کھلا راز ہے، اور اب اس کا حل ہونا چاہیے۔‘
جب ہم مانیٹرنگ جج لگاتے ہیں یہ بھی مداخلت ہے: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ ’میرے خیال سے اندر سے بھی مداخلت ہوتی ہے، جب ہم مانیٹرنگ جج لگاتے ہیں یہ بھی مداخلت ہے، جب ایجنسیوں پر مشتمل جے آئی ٹی بناتے ہیں یہ بھی مداخلت ہے، میں نے پہلے دن واضح کیا تھا کہ کوئی مداخلت نہیں ہو گی، اور میرے دور میں کوئی شکایت نہیں ہوئی یہ سب شکایتیں پہلے کے دور کی ہیں، میں بتا سکتا ہوں کہ کس طرح سے اس عدالت کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا گیا۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’میں چیف جسٹس کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں۔ لیکن اگر ایک جج کو ڈرایا جائے گا جس طرح سے ایک جج کی ذاتی معلومات سوشل میڈیا پر افشا کی گئیں۔ جس طرح سے گرین کارڈ کا ایشو اٹھایا گیا۔ اس ملک میں سچ بولنا بہت مشکل ہے، 2018 میں ججز کے خاندانوں کا ذاتی ڈیٹا لیک کیا گیا، ایک جج کو بتایا جائے کہ تمہارے بچے کہاں پڑھتے ہیں۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’اس کیس میں ہمارے پاس یہ موقع ہے کہ معاملے کو حل کریں، ہمیں مداخلت کے سامنے ایک فائر وال کھڑا کرنی ہو گی، ہمیں بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرنا ہو گا، ہمیں طے کرنا ہو گا کہ اگر کوئی مداخلت کرتا ہے تو اس کے خلاف کیسے کارروائی لینی چاہیے۔‘
سپریم کورٹ سے بھی نچلی عدالتوں میں مداخلت ہوتی ہے: چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے اس کا بااخیتار ہونا بھی ضروری ہے، کیا ایک چیف جسٹس کسی جج کو کہہ سکتا ہے کہ کیس اس طریقے سے چلائیں، اگر عدالت آزاد ہو تو مکران کا بھی سول جج اتنا بااختیار ہو جتنا چیف جسٹس ہے، عدلیہ میں بھی خود احتسابی کے نظام پر عمل درآمد کرنا ہو گا، پہلے دن سے واضح کرچکا ہو کہ بطور جج کسی قسم کی مداخلت اور دباؤ برداشت نہیں کروں گا۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’میں پانچ سال ایک ماہ بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا، مجھے پتہ ہے کہ کتنی مداخلت ہوتی ہے اور زیادہ تر سپریم کورٹ سے مداخلت ہوتی ہے۔‘
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا ہوں کبھی میرے یا کسی اور جج کے کام میں مداخلت نہیں کی گئی۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’میرے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے دوران کبھی مداخلت نہیں ہوئی۔‘
جسٹس مسرت ہلالی نے اس موقع پر کہا کہ ’میں سمجھتی ہوں کہ جو مداخلت کے خلاف کھڑا نہیں ہوتا اسے جج کی کرسی پر بیٹھنے کا حق نہیں۔ یہ جو تجاویز دی گئی ہیں یہ سب خود کیوں نہیں کرتے سپریم کورٹ سے اجازت کیوں لے رہے ہیں۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’مسائل اندرونی ہوں یا بیرونی آج موقع ہے حل کریں، ہائی کورٹس کے پاس تمام اختیارات تھے، توہین عدالت کا بھی اختیار تھا، ایک نظام بنانا ہے اور ملک کی ہر عدالت کو مضبوط کرنا ہے۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ نے منگل کو عدالتی امور میں مبینہ مداخلت سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
ججز کے خط میں کیا شکایت کی گئی؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے 25 مارچ 2024 کو عدلیہ کے امور میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت پر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا جس میں ججز نے اس معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خط میں کہا گیا تھا کہ ’اینٹیلیجنس ایجنسیز عدلیہ کے کام میں مداخلت کر رہی ہیں۔ لہذا انٹیلی جنس اہلکاروں کے ججز کو دھمکانے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔‘
خط میں ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان سے راہنمائی مانگتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم یہ خط سپریم جوڈیشل کونسل سے راہنمائی کے لیے لکھ رہے ہیں، درخواست ہے انٹیلی جنس اہلکاروں کی مداخلت کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے، انٹیلی جنس اہلکاروں کی عدالتی امور میں مداخلت اور ججز کو دھمکانا عدلیہ کی آزادی کم کرتا ہے، ایسی ادارہ جاتی مشاورت معاون ہوسکتی ہے کہ کیسے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کیا جائے۔‘
ججز خط کے معاملے پر مزید کیا ہوا؟
حکومت کی جانب سے چھ ججز کے خط میں لگائے الزامات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی کی معذرت کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خط پر از خود نوٹس لے کر سماعت کے لیے سات رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
لیکن پہلی سماعت کے بعد ہی سات رکنی بینچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی کیس کی مزید سماعت سے معذرت کر لی تھی، جسٹس یحییٰ آفریدی نے ازخود کیس کے حوالے سے لکھا کہ ’چھ ججز نے اپنے خط میں کوڈ آف کنڈکٹ ترتیب دینے بات کی ہے، انتظامی معاملے پر عدالتی کارروائی سے منفی تاثر جائے گا، سپریم کورٹ کو اس معاملے کو جوڈیشل سطح پر چلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس آئین کے تحت انتظامی اختیارات موجود ہیں لیکن چیف جسٹس یا دیگر ججز نے اختیارات کو استعمال نہیں کیا، موجودہ کیس میں سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184/3 کا اختیار استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘
عدلیہ کے معاملات میں مبینہ مداخلت کے معاملے پر متفرق درخواستیں دائر
عدلیہ کے معاملات میں مبینہ مداخلت کیس میں سندھ ہائی کورٹ بار نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے استدعا کی ہے کہ سپریم کورٹ ججز کے خط پر عدالت مناسب انکوائری کرائے، حکومت کو ہدایت کی جائے کہ ایجنسیوں کے کام کی مانیٹرنگ کا نظام ترتیب دیا جائے اور یقینی بنایا جائے کہ کوئی انٹیلی جنس ایجنسی اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہ کرے۔‘
ججز خط کے معاملے پر ایڈیشنل سیکریٹری سپریم کورٹ بار شہباز کھوسہ نے فریق بننے کی درخواست دائر کی، نائب صدر سپریم کورٹ بار عمر حیات سندھو بھی فریق بننے کی درخواست میں شامل ہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ فل کورٹ کی سماعت میں تمام سٹیک ہولڈرز کو سنا جائے، ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کو رولز تبدیل کرنے کی ہدایت کی جائے، ججز کو پابند کیا جائے کہ کسی قسم کی مداخلت پر سات روز میں چیف جسٹس پاکستان کو آگاہ کریں اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف اقدامات کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ سے انتظامیہ کی عدلیہ میں مداخلت کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے درخواست میں استدعا کی کہ ججوں کے خط میں اٹھائے گئے سوالات میں سے کچھ اگر سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ کار میں آتے ہیں تو ان پر بھی غور کر کے ججوں کے لیے گائیڈلائن فراہم کی جائے۔
عدلیہ میں مبینہ مداخلت کے خلاف بلوچستان بار کونسل اور بلوچستان ہائی کورٹ بار کی وکلا تنظیموں، ممبر پاکستان بار کونسل عابد زبیری اور پانچ دیگر وکلا نے بھی سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کیں جس میں استدعا کی گئی کہ معاملے کی سماعت کے لیے فُل کورٹ تشکیل دی جائے۔