میں پچھلے ہفتے سے اپنے گھر میں اکیلی ہوں کیونکہ میری والدہ ایک شادی میں شرکت کے لیے شہر سے باہر گئی ہوئی ہیں۔
میں اپنے والد اور بھائی کے ساتھ گھر پر موجود ہوں۔ وہ دونوں صبح کام پر جاتے ہیں اور شام کے بعد واپس آتے ہیں۔ میں پورا دن اکیلے گھر میں کبھی گھر کے کام تو کبھی اپنے کام کرتے ہوئے گزارتی ہوں۔
کبھی کبھی مجھے گھر میں وحشت سی محسوس ہوتی ہے، حالانکہ سب ویسا ہی ہے۔ ہر چیز اپنی جگہ پر موجود ہے۔ گھر کا نظام بالکل ویسے ہی چل رہا ہے جیسے اب تک چلتا آیا ہے لیکن بس ایک وجود کی کمی سے ہمیں اپنا ہی گھر اپنا محسوس نہیں ہو رہا۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے:
ایسے لگ رہا ہے جیسے پورے گھر میں ایک خالی پن بھر گیا ہو۔ گھر کی اینٹیں بھی بےجان سی لگ رہی ہیں، جیسے وہ بھی گھر کے مکینوں کی طرح ان کی کمی کو محسوس کر رہی ہیں۔
ہمارے گھر صفائی ستھرائی کے کام کے لیے جو خاتون آتی ہیں وہ بھی آج کل اپنا کام جلدی جلدی نمٹا کر نکلنے کی کرتی ہیں، حالانکہ انہیں ہمارے ہاں کام کرتے ہوئے 20 برس ہونے والے ہیں۔ وہ ہمارے گھر آتی ہیں تو دو منٹ کہہ کر 20 منٹ میری امی کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتی ہیں، پھر کام کرتی ہیں اور کام ختم ہونے کے بعد بھی وہی دو منٹ کہہ کر 20 منٹ تک ان سے مزید باتیں کرتی ہیں۔
اب وہ بھی بس کام نمٹاتے ہی اپنا تھیلا اٹھا کر خداحافظ کہتی ہوئی اپنے گھر چلی جاتی ہیں۔ ان سے بھی یہاں زیادہ دیر رکا نہیں جاتا۔
ایک عورت اس طرح گھر کو اور اس کی روح کو اپنے نام کر لیتی ہے کہ اس کی غیر موجودگی گھر کے مکینوں کے علاوہ اس گھر میں روز آنے جانے والوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔
ہمارے گھروں کی رونقیں ہماری ماؤں سے ہوتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہمارے گھروں کے کاغذات بے شک ان کے نام نہ ہوں لیکن گھروں کی رونقیں اور سکون انہی کے دم سے ہوتا ہے۔ اسے کہتے ہیں اصل حکومت۔
ہمیں گھر داخل ہوتے ہی وہ نظر نہ آئیں تو ہمارے اندر تک بےسکونی اتر جاتی ہے۔ ہم فوراً انہیں آوازیں دینے لگتے ہیں۔ جیسے ہی ان کی آواز سنائی دیتی ہے یا وہ دکھائی دیتی ہیں ہم سکون میں آجاتے ہیں۔ تب لگتا ہے کہ ہم اپنے گھر پہنچ چکے ہیں۔
اس ہفتے میں مجھے ان کی موجودگی کے علاوہ ان کی آواز کی بھی شدت سے کمی محسوس ہوئی۔ حالانکہ فون پر بات ہوتی رہی لیکن گھر میں ان کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔
ان کی آواز ہی گھر کی دیواروں کو زندگی بخشتی تھی۔ اب تو یہ دیواریں بھی زندہ نہیں لگ رہیں۔
صبح آنکھ کھلتی تھی تو ان کے باورچی خانے میں موجودگی محسوس ہوتی تھی۔ کبھی بابا سے بات کر رہی ہیں تو کبھی فون پر مصروف ہیں یا کبھی ہمیں ہی آوازیں دے رہی ہیں۔
- ’اٹھ جاؤ۔ بہت سو لیا۔‘
- ’اب موٹر چلا دو۔‘
- ’اب بند کر دو۔‘
- ’اب ہانڈی بنا لو۔‘
- ’یہ چیز وہاں رکھ دو۔‘
- ’یہ دیکھو ٹی وی پر کیا آ رہا ہے۔‘
- ’وٹس ایپ پر یہ پیغام آیا ہے۔ دیکھو۔ کیا ہو رہا ہے دنیا میں۔‘
ہم بس دیکھ کر چپ ہو جاتے تھے۔ کہہ بھی نہیں پاتے تھے کہ یہ غلط پیغام ہے۔
بس جیسے ایک اَن کہا سا عہد ہو کہ وہ بولتی رہیں گی اور ہم انہیں سنتے رہیں گے۔
کبھی کبھی ہم کہہ بھی دیتے تھے کہ ذرا چپ کر جائیں، آہستہ بولیں یا ان کے بار بار کام بتانے پر جھنجھلا بھی جاتے تھے لیکن ان کی غیر موجودگی میں محسوس ہو رہا ہے کہ ان کا بولنا یا ہمیں کام کا کہنا کیسے ہماری زندگیوں کو چلا رہا تھا۔
کچھ دن بعد وہ واپس آ جائیں گی اور اپنے ساتھ اپنی اور اس گھر کی رونق بھی واپس لے آئیں گی۔ ہم سب اس دن کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس دن ہم انہیں ان کا گھر سونپ کر آرام سے بیٹھ جائیں گے۔ پھر وہ جانیں اور ان کا گھر جانے۔
لیکن ان کا کیا جن کی مائیں انہیں چھوڑ کر دوسرے جہاں چلی گئیں۔ وہ ان کے بعد سے اپنے بے جان گھروں میں رہ رہے ہیں۔
ان کی مائیں تو اب واپس نہیں آ سکتیں۔ وہ دن رات اپنے گھروں میں اپنی ماؤں کی کمی محسوس کرتے ہوں گے۔ ان کی آواز سننے کو ترستے ہوں گے۔ اللہ انہیں صبر عطا فرمائے اور ان کی زندگیاں ان کے لیے آسان بنائے۔ آمین۔
میری طرح جن کی مائیں حیات ہیں، اللہ انہیں وقت سے اپنی ماؤں کی اہمیت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کا حق کسی حد تک پورا کرنے کی استطاعت دے۔ آمین۔